سورة العنكبوت - آیت 61

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں بہکائے جارہے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ان آیات کریمہ میں مشرکین کے خلاف، جو توحید الوہیت اور توحید عبادت کی تکذیب کرتے ہیں۔۔۔ توحید ربوبیت کے ذریعے سے، جس کا وہ اقرار کرتے ہیں۔۔۔ الزامی استدلال کیا گیا ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے؟ کون ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کے مرنے کے بعد اس کو زندگی عطا کرتا ہے اور کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی تدبیر ہے؟ ﴿ لَيَقُولُنَّ اللّـهُ﴾ تو وہ جواب دیں گے کہ اکیلے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ان تمام امور میں بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی، جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، بے بسی کا اعتراف کریں گے۔ ان کے جھوٹ اور بہتان طرازی پر تعجب کیجیے کہ وہ خود ساختہ معبودوں کی عاجزی اور بے بسی کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ کسی چیز کی تدبیر کرنے کے مستحق نہیں بایں ہمہ وہ ان کی عبادت کی طرف مائل ہیں۔ آپ ان کو لوگوں کی اس فہرست میں لکھ دیجیے جن میں عقل معدوم ہے، جو بے وقوف اور ضعیف العقل ہیں۔ کیا آپ کسی اور شخص سے زیادہ کم عقل اور بے بصیرت پائیں گے جو اپنی حاجت روائی کے لیے کسی پتھر کے بت یا قبر کے پاس آتا ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ وہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ جو تخلیق پر قادر ہیں نہ رزق رسانی پر؟ پھر ان کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہیں اور انہیں اپنے رب کا شریک بنا دیتے ہیں جو خالق و رزاق اور نفع و نقصان کا مالک ہے۔