اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
اس کی تلاوت کر جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کر، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی وحی و تنزیل یعنی اس کتاب عظیم کی تلاوت کا حکم دیتا ہے۔ یہاں اس کتاب عظیم کی تلاوت کا معنی یہ ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کیا جائے، اس کی ہدایت کو راہ نما بنایا جائے، اس کی خبر کی تصدیق، اس کے معانی میں تدبر اور اس کے الفاظ کی تلاوت کی جائے۔ تب اس کے الفاظ کی تلاوت، معنی ہی کا جز شمار ہوگی۔ جب تلاوت کا معنی مذکورہ بالا امور کو شامل ہے تو معلوم ہوا کہ مکمل اقامت دین تلاوت کتاب میں داخل ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ﴾ ” اور نماز قائم کرو۔“ عام طور پر عطف خاص کے باب میں سے ہے اور اس کی وجہ نماز کی فضیلت، اس کا شرف اور اس کے اچھے اثرات ہیں۔ ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَتَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ﴾ ” بے شک نماز فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔“ ﴿الْفَحْشَاء﴾ سے مراد ہر وہ بڑا گناہ ہے جس کی قباحت مسلم اور نفس میں اس کی چاہت ہو۔ ﴿ الْمُنكَرِ ﴾ سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس کو عقل و فطرت برا سمجھے۔ نماز کا فواحش و منکرات سے روکنے کا پہلو یہ ہے کہ بندۂ مومن جو نماز کو قائم کرتا ہے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے ارکان و شرائط کو پورا کرتا ہے، اس کا دل روشن اور پاک ہوجاتا ہے، اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، نیکیوں میں رغبت بڑھ جاتی ہے اور برائیوں کی طرف رغبت کم یا بالکل معدوم ہوجاتی ہے۔ اس طریقے سے نماز پر دوام اور اس کی محافظت ضرور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ پس فواحش و منکرات سے روکنا نماز کا سب سے بڑا مقصد اور اس کا سب سے بڑا ثمرہ ہے۔ نماز کو قائم کرنے میں ایک اور مقصد بھی ہے جو پہلے مقصد سے عظیم تر ہے اور وہ ہے نماز کا اللہ تعالیٰ کے قلبی، لسانی اور بدنی ذکر پر مشتمل ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور بہترین عبادت جو مخلوق کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ نماز ہے، نیز نماز کے اندر تمام جوارح کی عبودیت شامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی، بنا بریں فرمایا ﴿ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ ﴾ ” اور اللہ کا ذکر بڑا ہے۔“ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کی مدح کی، اس لیے آگاہ فرمایا کہ نماز کے باہر اللہ تعالیٰ کا ذکر نماز سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، جیسا کہ جمہور مفسرین کا قول ہے، مگر پہلا معنی اولیٰ ہے کیونکہ نماز اس ذکر سے بہتر ہے جو نماز سے باہر ہو کیونکہ نماز بذات خود سب سے بڑا ذکر ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴾ اور تم جو نیکی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، وہ تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔