فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
تو لوط اس پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، یقیناً وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور ان کی قوم اپنے عناد پر جمی رہی۔ سوائے لوط علیہ السلام کے جو ابراہیم علیہ السلام کی دعوت پر ایمان لے آئے اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرما کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ جس کا ذکر عنقریب آئے گا۔ ﴿ وَقَالَ ﴾ جب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کی دعوت کچھ فائدہ نہیں دے رہی تو کہنے لگے ﴿ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ﴾ ” میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔” یعنی وہ برے خطہ ارض کو چھوڑ کر بابرکت سر زمین کی طرف نکل گئے.... اس سے مراد ملک شام ہے ﴿ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ ” بے شک وہ بڑاہی غالب ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ جو قوت کا مالک ہے تمہیں ہدایت دینے پر قادر ہے لیکن وہ حکمت والا ہے اور اس کی حکمت ایسا کرنے کی متقضی نہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو اسی حال میں چھوڑ کر چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے ان کو ہلاک کردیا تھا بلکہ صرف یہ ذکر فرمایا کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی قوم پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا۔ وہ ان کا خون پی گئے، گوشت کھا گئے اور ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کر ڈالا اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لئے دلیل پر توقف کرتا چاہیے جو کہ موجود نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ان کو تہس نہس کیا ہوتا تو ضرور اس کا ذکر فرماتا جیسے دیگر جھٹلانے والی امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر کیا اس قصہ کا یہ راز تو نہیں کہ حضرت خلیل علیہ السلام مخلوق میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق، سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ حلیم اور سب سے زیادہ جلیل القدر لوگوں میں سے تھے۔ آپ نے کبھی اپنی قوم کے لئے بد دعا نہیں کی جیسے دیگر بعض انبیائے کرام نے بد دعا کی اور نہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کی قوم پر عذاب نازل فرمایا.... اس موقف پر یہ واقعہ بھی دلالت کرتا ہے کہ جب فرشتے قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے آپ کے پاس آئے تو آپ نے قوم لوط کی مدافعت کے لئے ان فرشتوں سے جھگڑا کیا حالانہ وہ آپ کی قوم نہ تھی۔ اصل صورت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔