ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں، ہم اسے تیری طرف وحی کرتے ہیں اور تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے اور نہ تو اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ جھگڑ رہے تھے۔
اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾” یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں۔“ ﴿وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ﴾ ” اور آپ ان کے پاس نہ تھے، جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پا لے گا۔“ جب مریم علیہا السلام کی والدہ انہیں بیت المقدس کے ذمہ دار افراد کے پاس لے گئیں تو ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوئی کہ وہ مریم علیہا السلام کی دیکھ بھال کا شرف حاصل کرے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے قرعہ اندازی کی، وہ اس طرح کہ اپنے قلم دریا میں ڈال دیئے کہ جس کا قلم پانی کے ساتھ نہیں بہے گا، وہی مریم علیہا السلام کا سرپرست قرار پائے گا۔ یہ شرف حضرت زکریا علیہ السلام کو حاصل ہوا جو ان کے نبی اور معزز ترین فرد تھے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان لوگوں کو یہ واقعات بتاتے ہیں جن کے بارے میں نہ انہیں معلوم تھا، نہ ان کے آباؤ و اجداد کو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سچے ہیں اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ لہٰذا ان کا فرض ہے کہ آپ کی اطاعت قبول کریں اور آپ کے احکام کی تعمیل کریں۔ جیسے ارشاد ہے : وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ (القصص :28؍44) ” اور طور کے مغربی جانب، جبکہ ہم نے موسیٰ کو احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ تو آپ موجود تھے، اور نہ آپ دیکھنے والوں میں سے تھے۔