وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
اور بلا شبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ہزار برس رہا، پھر انھیں طوفان نے پکڑ لیا، اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔
اللہ تعالیٰ گزشتہ امتوں کے عذاب کی بابت اپنے حکم اور اپنی حکمت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا، جو ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے، ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے، بتوں اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے روکتے تھے۔ ﴿ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا ﴾ ” پس وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان کے درمیان رہے“ وہ نبی کی حیثیت سے ان کو دعوت دینے سے اکتائے نہ ان کی خیر خواہی سے باز آئے وہ رات دن اور کھلے چھپے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے، مگر وہ رشد و ہدایت کی راہ پر نہ آئے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے نبی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بے انتہا صبر، حلم اور تحمل کے باوجود ان کے لئے ان الفاظ میں بد دعا کی ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا﴾ )نوح : 71؍26) اے میرے رب ! روئے زمین پر کسی کافر کو بستانہ چھوڑ۔ “ ﴿ فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ ﴾ پس ان کو طوفان نے آپکڑا“ یعنی ان کو اس پانی نے (طوفان کی صورت میں)آلیا جو بہت کثرت سے آسمان سے برسا تھا اور نہایت شدت سے زمین سے پھوٹا تھا ﴿ وَهُمْ ظَالِمُونَ ﴾ اور وہ ظالم تھے اور اس عذاب کے مستحق تھے۔