قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
کہا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی بنادے؟ فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تین دن لوگوں سے بات نہیں کرے گا مگر کچھ اشارے سے اور اپنے رب کو بہت زیادہ یاد کر اور شام اور صبح تسبیح کر۔
زکریا علیہ السلام نے اس بشارت کے جلدی پورا ہونے کی امید میں اور مکمل اطمینان حاصل ہونے کی غرض سے فرمایا : ﴿رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً﴾ ” پروردگار ! میرے لئے کوئی نشانی مقرر کر دے“ جو اس بچے کے وجود میں آجانے کی علامت ہو۔﴿قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا﴾” فرمایا : نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تو لوگوں سے بات نہ کرسکے گا، مگر اشارے سے،یعنی آپ کی زبان بغیر کسی مرض یا آفت کے کلام سے رک جائے گی، آپ صرف اشارے سے بات کرسکیں گے۔ کلام نہ کرسکنا ایک عظیم علامت ہے۔ اس میں ایک عجیب مناسبت ہے یعنی جس طرح اسباب موجود ہوتے ہوئے اللہ ان کو کام کرنے سے روک سکتا ہے۔ اسی طرح اسباب کے بغیر پیدا کرسکتا ہے۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ تمام اسباب اللہ کی قضاء و قدر کے تحت ہیں۔ اللہ نے آپ کو اپنا شکر کرنے اور صبح شام کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا۔ حتیٰ کہ جب آپ حجرے سے باہر تشریف لائے ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا﴾(مریم :19؍ 11) ” تو لوگوں کو اشارے سے فرمایا کہ صبح شام اللہ کی تسبیح کرتے رہنا۔ “