سورة القصص - آیت 79

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں نکلا۔ ان لوگوں نے کہا جو دنیا کی زندگی چاہتے تھے، اے کاش! ہمارے لیے اس جیسا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بلاشبہ وہ یقیناً بہت بڑے نصیب والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

قارون اپنے عناد اور سرکشی پر جما رہا اس نے تکبر اور غرور کی بنا پر اپنی قوم کی خیر خواہی کو قبول نہ کیا، وہ خود پسندی میں مبتلا تھا، جو مال و دولت اسے عطا کیا گیا تھا اس نے اسے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ ﴿ فَخَرَجَ﴾ ایک روز باہر آیا ﴿عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ﴾ ” اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے بڑی ٹھاٹھ باٹھ سے“ یعنی وہ اپنے بہترین دنیاوی حال میں اپنی قوم کے سامنے آیا، اس کے پاس بہت زیادہ مال و دولت تھا وہ پوری طرح تیار ہو کر اور پوری سج دھج کے ساتھ، اپنی قوم کے سامنے آیا۔ اس قسم کے لوگوں کی یہ سج دھج، عام طور پر بہت ہی مرعوب کن ہوتی ہے جس میں دنیاوی زیب و زینت، اس کی خوبصورتی، اس کی شان و شوکت، اس کی آسودگی اور اس کا تفاخرسب شامل ہوتے ہیں۔ قارون کو اس حالت میں انکھوں نے دیکھا، اس کے لباس کی ہیئت نے دلوں کو لبریز کردیا اور اس کی سج دھج نے نفوس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ دیکھنے والے دو گرہوں میں منقسم ہوگئے ہر گروہ نے اپنے اپنے عزم و ہمت اور اپنی اپنی رغبت کے مطابق تبصرہ کیا۔ ﴿قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ یعنی وہ لوگ جن کے ارادے صرف دنیاوی شان وشوکت ہی سے متعلق ہیں، دنیا ہی کی منتہائے رغبت ہے اور دنیا کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں انہوں نے کہا: ﴿يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ﴾ ” کاش ہمیں بھی وہ )دنیاوی سازو سامان اور اس کی خوبصورتی( عطا کردی جاتی جس سے قارون کو نوازا گیا ہے۔ “ ﴿إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴾ ” بے شک وہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے۔“ اگر ان کی رغبتوں کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں تو وہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ وہ تو بڑے نصیبے والا ہے کیونکہ وہ دنیا کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہے جن کے ذریعے سے وہ اپنی زندگی کے مطالب و مقاصد کے حصول پر قادر تھا۔ یہ عظیم حصہ لوگوں کے ارادوں کے مطابق تھا۔ یہ ان لوگوں کے ارادے اور ان کے مقاصد و مطالب ہیں جو نہایت گھٹیا ہمتوں کے مالک ہیں، جن کے ارادے اعلٰی مقاصد و مطالب کی طرف ترقی کرنے سے قاصر ہیں۔