قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
کہہ کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک دن کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمھارے پاس کوئی رات لے آئے، جس میں تم آرام کرو؟ تو کیا تم نہیں دیکھتے۔
اور ﴿ إِن جَعَلَ اللّٰـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللّٰـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴾ ” اگر اللہ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ دن ہی طاری کردے تو اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو تمہارے لئے رات لے آتا جس میں تم آرام کرسکتے؟ کیا تم دیکھتے نہیں“ عبرت کے مواقع اور آیات الٰہی کی جگہیں تاکہ تمہاری بصیرت روشن رہے اور تم صراط مستقیم پر گامزن رہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رات کی آیت مبارکہ میں فرمایا : ﴿أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴾ ” کیا تم سنتے نہیں؟“ اور دن کی آیت مبارکہ میں فرمایا : ﴿أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴾ ” کیا تم دیکھتے نہیں؟“ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کے وقت سماعت کا حاسہ، بصارت کے حاسہ کی نسبت زیادہ قوی ہوتا ہے اور دن کے وقت بصارت کا حاسہ زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غوروفکر کرے، ان میں بصیرت حاصل کرے اور ان کے وجود اور عدم وجود کے مابین موازنہ کرے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وجود اور ان کے عدم وجود کے مابین مواز نہ کرے گا تو اس کی عقل کو اللہ تعالیٰ کے احسان و عنایت پر تنبہ حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس جو کوئی عادت کی پیروی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ سے اسی طرح چلا آرہا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثناء سے خالی اور اس حقیقت کی روایت سے بے بہرہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔۔۔ تو وہ ایسا شخص ہے جس کے دل میں کبھی شکر اور ذکر کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔