سورة القصص - آیت 59

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تیرا رب کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، یہاں تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول بھیجے جو ان کے سامنے ہماری آیات پڑھے اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر جب کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ قوموں پر ان کے مجرو کفر کی بناء پر، ان پر حجت قائم کرنے اور ان کی طرف رسول مبعوث کرنے سے قبل، عذاب نازل نہیں کرتا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ﴾ ” اور تمہارا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔“ یعنی ان کے کفر اور ظلم کی بناء پر ﴿حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا﴾ ” جب تک ان کے بڑے شہر میں نہ بھیج لے۔“ یعنی اس بستی اور شہر میں، جہاں سے وہ گزرتے ہیں، جہاں وہ آتے جاتے رہتے ہیں، ان بستیوں کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں اور ان سے ان کی خبریں اور واقعات مخفی نہیں رہتے ہیں۔ ﴿رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا﴾ ” رسول جو ان پر ہماری آیتیں پڑھتا“۔ جو اس وحی کی صحت پر دلالت کرتیں جسے رسول لے کر آیا اور اس کی دعوت کی تصدیق کرتی تھیں اور اللہ کا رسول ان کے قریب اور دور سب کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا تھا۔ اس کے برعکس دور دراز بستیوں اور زمین کے دور دراز گوشوں میں، رسولوں کا مبعوث ہونا ان پر مخفی رہ سکتا ہے، مگر بڑے بڑے شہروں میں ان اخبار و واقعات کا شائع ہونا زیادہ یقینی ہے اور غالب حالات میں شہروں کے باشندوں میں دوسروں کی نسبت جفا کم ہوتی ہے۔ ﴿وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ﴾ ” اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اسی وقت جب کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں“۔ یعنی انہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کرکے ظلم کیا اور سزا کے مستحق ٹھہرے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے ظلم کی بناء پر اور اس پر حجت قائم کرنے کے بعد ہی عذاب دیتا ہے۔