قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کہہ پھر اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو کہ میں اس کی پیروی کروں، اگر تم سچے ہو۔
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کا ان دونوں کتابوں کا انکار کرنا طلب حق اور کسی اپنے حکم کی اتباع کی بنا پر تھا جو ان دونوں کتابوں سے اور بہت بہترتھا یا محض خواہش نفس پر مبنی تھا؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللّٰـهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَا﴾ ” کہہ دیجئے، اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔“ یعنی تو رات اور قرآن سے بڑھ کر ہدایت کی حامل ﴿أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” میں اس کی اتباع کروں گا اگر تم سچے ہو“ اور وہ ایسی کتاب لانے پر قادر نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ قرآن اور تورات جیسی کتاب تصنیف کرلائے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، تب سے علم و ہدایت، بیان و تبیین اور مخلوق کے لئے رحمت کے اعتبار سے ان دو کتابوں جیسی کوئی اور کتاب وجود میں نہیں آئی۔