سورة القصص - آیت 48

فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آگیا تو انھوں نے کہا اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں؟ تو کیا انھوں نے اس سے پہلے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ انھوں نے کہا یہ دونوں (مجسم) جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور کہنے لگے ہم تو ان سب سے منکر ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ﴾ ” پس جب ان کے پاس حق آگیا۔“ جس میں کوئی شک نہیں ﴿مِنْ عِندِنَا ﴾ ” ہماری طرف سے“ اس سے مراد قرآن ہے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا۔ ﴿قَالُوا ﴾ تو اس قرآن کی تکذیب کرتے اور اس پر لایعنی اعتراضات کرتے ہوئے انہوں نے کہا : ﴿لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ﴾ ” انہیں وہ کیوں نہیں دیا گیا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر تمام کتاب اکٹھی نازل کی گئی اور رہی وہ کتاب جو ٹکڑوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ ان کے اس قول میں کون سی دلیل ہے؟ اور یہ کونسا شبہ ہے کہ اگر کتاب ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو اس قرآن کا کمال ہے اور جس ہستی پر یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اعتنائے خاص ہے کہ اس نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اپنے رسول کو ثابت قدمی اور استقامت عطا کرے اور مومنین کے ایمان میں اضافہ ہو۔ فرمایا : ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا﴾ (الفرقان 25 ؍ 33) ” اور وہ جب کبھی کوئی مثال لے کر آپ کے پاس آئے اس کا درست اور بروقت جواب ہم نے آپ کو دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھول کر بیان کردیا۔ “ نیز قرآن کو موسیٰ علیہ السلام کی کتاب پر قیاس کرنا ایک ایسا قیاس ہے جسے یہ خود ہی توڑ رہے ہیں۔ یہ قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب پر کیونکر قیاس کرتے ہیں جس کا یہ انکار کرتے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لاتے؟ بنا بریں فرمایا : ﴿أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا﴾ ” کیا جو پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا انہوں نے اس کا کفر نہیں کیا، کہنے لگے کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق۔“ یعنی قرآن مجید اور تورات مقدس، جو ان دونوں کی جادوگری اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ﴿وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم تو ہر ایک سے انکار کرنے والے ہیں۔“ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ لوگ بلا دلیل حق کا ابطال اور ایسی چیز کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں جو حق کی مخالفت نہیں کرسکتی۔ ان کے اقوال میں تناقض اور اختلاف ہے اور ہر کافر کا یہی رویہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمادی کہ انہوں نے دونوں کتابوں اور دونوں رسولوں کا انکار کیا ہے۔