وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
اور لیکن ہم نے کئی نسلیں پیدا کیں، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی اور نہ تو اہل مدین میں رہنے والا تھا کہ ان کے سامنے ہماری آیات پڑھتا ہو اور لیکن ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔
﴿وَلَـٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ﴾ ” لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گزرگئی۔“ اس لئے علم ناپید ہوگیا اور آیات الہٰی کو فراموش کردیا گیا۔ ہم نے آپ کو ایسے وقت میں مبعوث کیا جب آپ کی سخت ضرورت، اور اس علم کی شدید حاجت تھی جو ہم نے آپ کو عطا کیا اور آپ کی طرف وحی کیا ﴿وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا ﴾ یعنی آپ مقیم نہ تھے ﴿ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ﴾ ” اہل مدین میں کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے۔“ یعنی آپ ان کو تعلیم دیتے تھے نہ ان سے تعلیم لیتے تھے، حتیٰ کہ (گمان گزرتا کہ) آپ نے موسیٰ علیہ السلام اور اہل مدین کے بارے میں جو خبر دی ہے اسی بنا پر دی ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ﴾ ” لیکن ہم ہی رسول بھیجنے والے رہے ہیں۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ خبر جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ آپ کی رسالت کے آثار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور ہماری طرف سے وحی بھیجے جانے کے بغیر اس کا جاننے کا آپ کے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں۔