وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ
اور یہ کہ اپنی لاٹھی پھینک۔ تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے، جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کرچل دیا اور پیچھے نہیں مڑا۔ اے موسیٰ ! آگے آ اور خوف نہ کر، یقیناً تو امن والوں سے ہے۔
﴿ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ﴾ ” اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دیں“ تو آپ نے اپنا عصا پھینک دیا۔ ﴿ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ﴾ ” پس جب موسیٰ نے لاٹھی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔“ یعنی آپ نے اس کو دوڑتا ہوا دیکھا اس کی شکل بہت ہولناک تھی ﴿كَأَنَّهَا جَانٌّ ﴾ گویا کہ وہ بہت بڑا نر سانپ ہے۔ ﴿وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ﴾ تو موسیٰ علیہ السلام واپس بھاگے اور دل پر خوف کے غلبہ کی وجہ سے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : ﴿يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ﴾ ” اے موسیٰ! آگے آؤ، اور ڈرو مت، تم امن پانے والوں میں ہو۔“ یہ فقرہ عدم خوف اور امن عطا کرنے میں بلیغ ترین فقرہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ أَقْبِلْ ﴾ سامنے آنے کے حکم اور اس کی تعمیل کا تقاضا کرتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان سامنے آتا ہے مگر وہ ابھی تک خوف کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَخَفْ﴾ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو دو امور کا حکم دیا۔ سامنے آنا اور دل میں کسی قسم کے خوف کو نہ رکھنا۔ مگر ان کے باوجود یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ وہ شخص مامور خوف سے آزاد ہو کہ آئے مگر اسے امر مکر وہ سے حفاظت اور امن کی ضمانت حاصل نہ ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ﴾ ” بے شک آپ امن پانے والوں میں سے ہیں“ تب خوف ہر لحاظ سے زائل ہوجاتا ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام ہر خوف اور رعب سے آزاد اور مطمئن ہو کر اور آپ اپنے رب کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے سامنے آئے، ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کا یقین مکمل ہوچکا تھا۔ یہ معجزہ تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرعون کے پاس جانے سے قبل آپ کو مشاہدہ کروایا تاکہ جب آپ فرعون کے پاس جائیں تو یقین کامل کے مقام پر فائز ہوں تو اس صورت میں آپ زیادہ جرأت، زیادہ قوت اور صلابت کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں گے۔