فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلا تو اس نے پہاڑ کی طرف سے ایک آگ دیکھی، اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بے شک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں تمھارے لیے اس سے کوئی خبر لے آؤں، یا آگ کا کوئی انگارا، تاکہ تم تاپ لو۔
﴿ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ﴾ ” پس جب موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کردی۔“ اس میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ آپ نے وہ مدت پوری کی ہو جس کا پورا کرنا آپ پر واجب تھا یا اس کے ساتھ وہ زائد مدت بھی پوری کی ہوجیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کے ایفائے عہد کے وصف کی بنا پر یہی گمان کیا جاسکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اپنے گھر والوں، اپنی والدہ اور اپنے خاندان والوں کے پاس اپنے وطن پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔۔۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا خیال تھا کہ اس طویل مدت میں لوگ اس قبطی کے قتل کے واقعہ کو بھول گئے ہوں گے۔ ﴿وَسَارَ بِأَهْلِهِ ﴾ ” اپنے گھر والوں کو لے کر چلے۔“ مصر کا قصد کرکے ﴿آنَسَ﴾ یعنی آپ نے دیکھا ﴿مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ﴾ ” طور کی طرف آگ کو، تو وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے، ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپو۔“ وہ راستے سے بھٹکے ہوئے بھی تھے اور موسم بھی سرد تھا۔