فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی، اس نے کہا بے شک میرا والد تجھے بلا رہا ہے، تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے حال بیان کیا تو اس نے کہا خوف نہ کر، تو ان ظالم لوگوں سے بچ نکلا ہے۔
وہ دونوں عورتیں اپنے والد کے پاس گئیں اور ان کو تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ان کے والد نے ان میں سے ایک عورت کو موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا وہ آپ کے پاس آئی ﴿تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ﴾ ” شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی۔“ یہ حیا اس عورت کی اچھی فطرت اور خلق حسن پر دلالت کرتی ہے۔ حیا اخلاق فاضلہ میں شمار ہوتی ہے۔۔۔ خاص طور پر عورتوں میں۔ یہ چیز اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان خواتین کے مویشیوں کو جو پانی پلایا تھا کسی نوکر یا غلام کی حیثیت سے نہیں پلایا تھا کہ جن سے عموماً شرمایا نہیں جاتا بلکہ موسیٰ علیہ السلام تو عزت نفس رکھنے والے شخص تھے اس لئے اس عورت نے آپ کے جس حسن اخلاق کا مشاہدہ کیا وہ اس کی حیا کا موجب تھا۔ ﴿قَالَتْ﴾ پس اس عورت نے آکر موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا﴾ ” بے شک آپ کو میرے والد بلاتے ہیں کہ آپ نے جو ہمارے لئے پانی پلایا تھا اس کی آپ کو اجرت دیں۔“ یعنی آپ پر کسی قسم کا احسان کرتے ہوئے نہیں بلکہ آپ نے ہم پر احسان کی ابتدا کی ہے ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کے احسان کا بدلہ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کی بات مان لی۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ ﴾ ” پس جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور ان کے سامنے اپنا واقعہ بیان کیا۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ابتدائی اسباب سے لے کر، جو وہاں سے آپ کے فرار کے موجب بنے، یہاں پہنچنے تک، تمام واقعات سنا دئیے ﴿ قَالَ﴾ ” انہوں نے کہا“ موسیٰ علیہ السلام کا خوف دور کرتے اور ان کی دل جوئی کرتے ہوئے : ﴿لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ یعنی آپ کو ڈرنا اور خوف نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان ظالموں سے نجات دے دی ہے اور آپ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا کوئی اختیار نہیں۔