وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ
اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچا تو اس پر لوگوں کے ایک گروہ کو پایا جو پانی پلا رہے تھے اور ان کے ایک طرف دو عورتوں کو پایا کہ (اپنے جانور) ہٹا رہی تھیں۔ کہا تمھارا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا ہم پانی نہیں پلاتیں یہاں تک کہ چرواہے پلا کر واپس لے جائیں اور ہمارا والد بڑا بوڑھا ہے۔
﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ﴾ ” جب مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہیں اور پانی پلا رہے ہیں۔“ یعنی اپنے مویشیوں کو پانی پلارہے تھے۔ اہل مدین بہت زیادہ مویشیوں کے مالک تھے ﴿وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ﴾ ” اور انہوں نے پائیں ان لوگوں سے ورے۔“ یعنی لوگوں سے الگ تھلگ ﴿امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ﴾ ” دو عورتیں )اپنی بکریوں کو لوگوں کے حوضوں سے( دور ہٹاتے ہوئے“ کیونکہ وہ مردوں کے بخل اور عدم مروت کی بنا پر، ان سے مزاحم ہونے سے عاجز تھیں ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا ﴿ مَا خَطْبُكُمَا﴾ اس صورتحال میں تمہیں کیا پریشانی ہے۔ ﴿قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتیں جب تک چرواہے لوٹ نہ جائیں۔“ یعنی عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ بکریوں کو پانی پلانے کے لئے ہماری باری نہیں آتی جب تک کہ تمام چرواہے اپنی بکریوں کو پانی پلا کر وہاں سے ہٹ نہ جائیں۔ جب جگہ خالی ہوتی ہے تو ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلاتی ہیں۔ ﴿وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ﴾ ” اور ہمارا والد ایک بوڑھا آدمی ہے۔“ جس میں مویشیوں کو پانی پلانے کی طاقت ہے نہ ہم میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلاسکیں اور نہ ہمارے گھرانے میں مرد ہی ہیں جو ان چرواہوں سے مزاحم ہوسکیں۔