سورة القصص - آیت 19

فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

19-28 پھر جونہی اس نے ارادہ کیا کہ اس کو پکڑے جو ان دونوں کا دشمن تھا، اس نے کہا اے موسیٰ ! کیا تو چاہتا ہے کہ مجھے قتل کر دے، جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے، تو نہیں چاہتا مگر یہ کہ زمین میں زبردست بن جائے اور تو نہیں چاہتا کہ اصلاح کرنے والوں میں سے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ﴾ ” پھر جب اس نے پکڑنے کا ارادہ کیا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ﴿بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا ﴾ ” اس آدمی کو جو ان دونوں کا دشمن تھا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اور جھگڑا کرنے والے اس اسرائیلی کے دشمن کو جس نے موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا تھا۔ یعنی قبطی اور اسرائیلی کے درمیان جھگڑا جاری رہا اور اسرائیلی موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارتا رہا اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حمیت نے آلیا حتٰی کہ انہوں نے اس قبطی کو پکڑنا چاہا ﴿قَالَ﴾ ” کہا“ قبطی نے اپنے قتل پر موسیٰ علیہ السلام کو زبر و توبیخ کرتے ہوئے : ﴿يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح تم نے کل ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تم تو یہی چاہتے ہو کہ ملک میں ظلم و ستم کرتے پھرو۔“ کیونکہ زمین میں جابروں اور متکبروں کی سب سے بڑی علامت، ناحق قتل کرنا ہے۔ ﴿وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ﴾ ” اور یہ نہیں چاہتے کہ تم نیکوکاروں میں سے ہوجاؤ۔“ ورنہ اگر تم اصلاح چاہتے تو کسی ایک کو قتل کرنے کا ارادہ کئے بغیر میرے اور اس کے درمیان حائل ہوجاتے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس کو قتل کرنے کے ارادے سے باز آگئے اور اس کے وعظ اور زجروتوبیخ کی بنا پر رک گئے۔ ان دونوں واقعات پر موسیٰ علیہ السلام کی خبر پھیل گئی۔ یہاں تک کہ فرعون اور اس کے سرداروں نے باہم مشورہ کرکے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرد صالح کو مقرر کیا جس نے جلدی سے موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی کہ اہل دربار نے ان کے بارے میں متفقہ طور پر کیا فیصلہ کیا ہے۔