حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
یہاں تک کہ جب وہ آجائیں گے تو فرمائے گا کیا تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا، حالانکہ تم نے ان کا پورا علم حاصل نہ کیا تھا، یا کیا تھا جو تم کیا کرتے تھے؟
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا﴾ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو زجر و توبیخ کرتے اور ڈانٹتے ہوئے پوچھے گا ﴿أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا﴾ ” کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا حالانکہ تمہارے علم نے ان کا احاطہ نہیں کیا تھا۔“ تم پر اس وقت تک توقف کرنا فرض تھا جب تک کہ حق منکشف نہ ہوجاتا اور صرف کسی علم کی بنیاد پر کلام کرتے۔ تم نے ایک ایسے امر کی کیونکر تکذیب کردی جبکہ تمہیں اس کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ﴿أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” اور یہ بھی بتلاؤ کہ تم کیا کچھ کرتے رہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے ان کے علم اور ان کے عمل کے بارے میں سوال کرے گا تو وہ ان کے علم کو حق کی تکذیب کرنے والا اور ان کے عمل کو غیر اللہ کے لئے یا ان کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے خلاف پائے گا۔