وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقیناً فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
یعنی جب لوگوں پر وہ بات پوری ہونے کا وقت آپہنچے گا جسے اللہ تعالیٰ نے حتمی قرار دیا ہے اور اس کا وقت مقرر کردیا ہے ﴿ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ﴾ ” تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے“ یا زمین کے جانوروں میں سے ایک جانور، جو آسمان کے جانوروں میں سے نہیں ہوگا۔ ﴿تُكَلِّمُهُمْ﴾ یہ جانور بندوں کے ساتھ کلام کرے گا کہ بے شک لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے، یعنی اس وجہ سے کہ لوگوں کا علم اور آیات الہٰی پر ان کا یقین کمزور ہوجائے گا، تو اللہ تعالیٰ اس جانور کو ظاہر فرمائے گا جو کہ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز نشانیوں میں سے ہے تاکہ اس چیز کو وہ لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردے جس میں وہ شک کیا کرتے تھے۔ یہ جانور وہ مشہور جانور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس بارے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، (اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جانور کی کیفیت اور اس کی نوع ذکر نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ تو دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے لئے ظاہر کرے گا اور وہ خارق عادت کے طور پر لوگوں سے کلام کرے گا اور یہ ان سچے دلائل میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بتایا۔ واللہ اعلم) [بریکٹوں کے درمیان والی عبارت نسخہ الف کے حاشیے میں شیخ (مؤلف تفسیر) کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے (ازمحقق)]