قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اس سے کہا گیا اس محل میں داخل ہوجا۔ تو جب اس نے اسے دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا۔ اس نے کہا یہ تو شیشے کا صاف ملائم بنایا ہوا فرش ہے۔ اس (ملکہ) نے کہا اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے فرماں بردار ہوگئی۔
﴿ قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً ﴾ ” اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجاؤ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا۔“ کیونکہ شیشے شفاف تھے اور ان کے نیچے بہتا ہوا پانی صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہ شیشہ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بذات خود چل رہا ہو۔ اس کے سوا کوئی چیز نہ ہو۔ ﴿ وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ﴾ ” اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا لیا“ پانی میں داخل ہونے کے لئے۔ یہ چیز بھی ملکہ کی عقل مندی اور اس کے ادب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہ محل میں جہاں اسے داخل ہونے کے لئے کہا گیا، داخل ہونے سے رکی نہیں۔ اسے علم تھا کہ صرف اس کے اکرام و تکریم کی خاطر ایسا کرنے کے لئے کہا گیا ہے اور سلیمان بادشاہ اور اس کی تنظیم نے حکمت اور دانائی کی بنیادی پر اسے تعمیر کرایا ہے اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا اس کے بعد کسی بری حالت کے بارے میں اس کے دل میں ادنیٰ سا شک بھی نہ تھا۔ اور جب وہ ” پانی“ میں داخل ہونے کیلئے تیار ہوئی تو اسے کہا گیا : ﴿ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ ﴾ ” یہ ایسا محل ہے جس میں جڑے ہوئے ہیں۔“ یعنی چکنا اور ملائم کیا گیا ہے ﴿مِّن قَوَارِيرَ﴾” شیشوں سے۔“ اس لئے تجھے پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پس جب وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچی، وہاں جو کچھ دیکھا اور اسے سلیمان علیہ السلام کی نبوت اور رسالت کے بارے میں علم ہوا تو وہ اپنے کفر سے باز آگئی اور کہنے لگی : ﴿رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلّٰـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” اے میرے رب ! میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی، اب میں سلیمان کے ساتھ کائنات کے رب کی اطاعت قبول کرتی ہوں۔ “ ملکہ سبا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ خود ساختہ فروعات اور اسرائیلی روایات، جو تفسیر کے نام پر پھیلی ہوئی ہیں ان کا اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیر سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس قسم کی روایات ایسے امور میں شمار ہوتی ہیں جن کا قطعی فیصلہ ایسی دلیل پر موقوف ہوتا ہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہو۔ اس قصہ میں منقول اکثر روایات اس معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ اس لئے کامل احتیاط یہ ہے کہ ان سے اعراض کیا جائے اور ان کو تفسیر میں داخل نہ کیا جائے۔