فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَٰكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ
پھر جب وہ آئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے اور ہم اس سے پہلے علم دیے گئے تھے اور ہم فرماں بردار تھے۔
﴿ فَلَمَّا جَاءَتْ ﴾ ” پس جب وہ (ملکہ سبا) سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔“ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ تخت ملکہ سبا کے سامنے پیش کیا اور جس تخت پر وہ متمکن تھی اسے وہ اپنے شہر میں چھوڑ کر آئی تھی۔ ﴿ قِيلَ أَهَـٰكَذَا عَرْشُكِ ﴾ ” پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے۔“ یعنی ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آپ کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ کیا وہ اس جیسا تخت ہے جو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے؟ ﴿ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ﴾ ” اس نے کہا، گویا کہ یہ وہی ہے۔“ یہ ملکہ سبا کی ذہانت وفطانت تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا ” یہ وہی ہے“ کیونکہ اس میں تبدیلی ہوچکی تھی اور نہ اس نے اس کی نفی ہی کی کیونکہ وہ اس تخت کو پہنچان چکی تھی اس لئے اس نے اپنے جواب میں ایسا لفظ استعمال کیا جو دونوں امور کا محتمل اور دونوں حالتوں پر صادق آتا تھا۔ سلیمان علیہ السلام نے اس کی ہدایت اور عقل مندی پر حیران ہو کر اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، کہ اس نے اسے اس سے بھی زیادہ عقل و دانش سے نوازا ہے، کہا : ﴿ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا ﴾ ” اور ہم کو اس سے پہلے ہی علم ہوگیا تھا۔“ یعنی ہدایت، عقل و دانش اور حزم و احتیاط اس ملکہ سے پہلے عطا ہوچکی ہے ﴿وَكُنَّا مُسْلِمِينَ ﴾ ” اور ہم مسلمان ہیں۔“ اور یہی حقیقی اور نفع مند ہدایت ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ملکہ سبا کا قول ہو یعنی ’’ہمیں سلیمان کی بادشاہت، سلطنت اور وسیع اقتدار کے بارے میں اس حالت سے پہلے ہی علم تھا، جو بہت لمبی مسافت سے ہمارا تخت منگوا کر پیش کرنے کی صورت میں ہم نے اس کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔ ہم اس کے سامنے سر اطاعت خم کرتے ہوئے اور اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اطاعت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔“