إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک وہ اللہ کے نام سے ہے، جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
پھر اس نے خط کا مضمون بیان کرتے ہوئے کہا : ﴿ نَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللّٰـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴾ ” وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔“ یعنی مجھ سے بڑے بننے کی کوشش نہ کرو بلکہ مطیع ہو کر میری حکمرانی کو قبول کرلو میرے احکام کو تسلیم کرکے فرمانبرداری کے ساتھ میرے پاس آؤ۔ یہ خط مکمل طور پر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مختصر تھا کیونکہ یہ خط ان کو اپنی سرکشی، اپنے اس حال پر باقی رہنے سے روکنے، سلیمان علیہ السلام کے حکم کی اطاعت، ان کی حکمرانی قبول کرنے، مطیع ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے کو متضمن تھا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خط کی ابتدا میں پوری بسم اللہ لکھنا اور خط کے عنوان وغیرہ میں اپنے نام سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔