أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا، انھیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پھر ان میں سے ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے، اس حال میں کہ وہ منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اہل کتاب کی حالت بیان فرما رہا ہے جن پر انعام کرتے ہوئے اللہ نے انہیں اپنی کتاب دی۔ ان کا فرض تھا کہ سب سے زیادہ وہ اس پر قائم رہتے اور سب سے پہلے وہ اس کے احکام کو تسلیم کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انہیں جب کتاب کے فیصلے (کو قبول کرنے) کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے بدنوں کے ساتھ بھی منہ پھیرتے ہیں اور دلوں کے ساتھ بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت رویہ ہے۔ اس میں ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ ان جیسا کام نہ کریں، ورنہ ہم بھی اس مذمت کے مستحق ہوں گے اور ہمیں بھی ان جیسی سزا مل سکتی ہے۔ بلکہ جس کو اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جائے اس کا فرض ہے کہ سنے، اطاعت کرے، اور دل سے تسلیم کرے، جیسے اللہ نے فرمایا ﴿ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ ﴾ (النور : 24؍ 51) ” مومنوں کو جب اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے، تو وہ صرف یہی کہتے ہیں : ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا“ اہل کتاب کو جو دھوکا لگا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہیں،