وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور اپنا بازو اس کے لیے جھکا دے جو ایمان والوں میں سے تیرے پیچھے چلے۔
﴿ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اہل ایمان جو آپ کے متعبین ہیں ان کے ساتھ نرم برتاؤ کیجئے، ان کے ساتھ نہایت نرمی سے بات کیجئے ان کے ساتھ محبت و مودت، حسن اخلاق اور احسان کامل سے پیش آئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد کی تعمیل کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں فرمایا : ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ﴾(آل عمران : 3؍159) ” اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ ان لوگوں کے لئے بڑے نرم واقع ہوئے ہیں اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے آس پاس سے چھٹ جاتے پس آپ ان کو معاف کر دیجئے، ان کے لئے مغفرت مانگئے اور اجتماعی امور میں ان سے مشاورت کرلیا کیجئے۔ “ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اخلاق، کامل ترین اخلاق تھے جن کے ذریعے سے عظیم مصالح حاصل ہوتے ہیں اور بہت سے مضر امور دور ہوتے ہیں۔ جن کا ہر روز مشاہدہ ہوتا ہے۔۔۔ تب کیا اس شخص کے لائق ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی اتباع اور اقتداء کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر بوجھ بنے، بد اخلاق، سخت طبیعت، سخت دل، بدخو اور بدکلام ہو؟ اور اگر وہ ان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سوء ادب دیکھے تو ان سے ناراض ہوجائے اور ان کو چھوڑ دے تب وہ ان سے نرم برتاؤ کرے نہ اس کے ہاں ان کے لئے کوئی ادب اور کوئی توفیق ہے۔ اس طرز کے نتیجے میں بہت سے مفاسد حاصل اور بہت سے مصالح ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ اسے پائیں گے کہ وہ اس شخص کی تحقیر کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو اختیار کرتا ہے، وہ اس کے حسن اخلاق کو نفاق اور مداہنت کا نام دیتا ہے، اپنے آپ کو بہت اونچا سمجھتا ہے اور اپنے عمل پر خوش ہوتا ہے۔ یہ طرز عمل اس کی جہالت، شیطان کی تزیین ور اس کا فریب شمار ہوگا۔