سورة آل عمران - آیت 21

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرتے ہیں اور لوگوں میں سے جو انصاف کرنے کا حکم دیتے ہیں انھیں قتل کرتے ہیں، سو انھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی خبر دی ہے، عظیم ترین جرائم کے مرتکب ہیں۔ اس سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ کی ان آیات کا انکار کیا جائے جو اس حق کا قطعی ثبوت پیش کرتی ہیں، جس کا انکار کرنے والا انتہائی درجے کے کفر و عناد میں مبتلا ہے۔ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرتے ہیں جن کا حق اللہ کے حق کے بعد سب سے بڑا ہے، جن کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا، ان کا احترام کرنا اور ان کی مدد کرنا، اللہ نے فرض قرار دیا ہے۔ لیکن انہوں نے اس کے بالکل برعکس عمل کیا۔ وہ انصاف کا حکم دینے والوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ انصاف سے مراد نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہے جو احسان اور خیر خواہی ہے ان لوگوں کی، جنہیں اچھی بات بتائی جاتی ہے یا بری بات سے منع کیا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس احسان اور خیر خواہی کا انتہائی برا جواب دیا کہ اپنے محسنوں کو شہید کردیا۔ ان شنیع جرائم کی وجہ سے وہ انتہائی سخت عذاب کے مستحق ہوگئے۔ یعنی ایسا شدید اور درد ناک عذاب جس کو پوری طرح بیان کرنا، اور اس کی شدت کا اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ جس کی تکلیف بدنوں، دلوں اور روحوں کے لئے ہے۔ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ انہیں کوئی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، بلکہ اللہ کی دی ہوئی سزا میں کوئی ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ انہیں ہر شر اور مصیبت حاصل ہوگی۔ یہ حالت یہود کی، اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی ہے۔ اللہ ان کا برا کرے۔ یہ اللہ پر، نبیوں پر اور نیک لوگوں پر کتنے جری ہیں !