سورة آل عمران - آیت 18

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا پختہ ترین ثبوت پیش کیا ہے، وہ ہے اللہ عزو جل کی اپنی گواہی اور اس کی مخلوق میں سے معزز ترین افراد یعنی فرشتوں اور علماء کی گواہی۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے توحید پر دلائل و براہین قاطعہ قائم فرمائے ہیں۔ آفاق وانفس کے دلائل اس عظیم اصول پر قائم ہیں۔ اللہ کا جو بندہ بھی توحید کا علم لے کر کھڑا ہوا۔ اللہ نے ہمیشہ توحید کے منکروں اور مشرکوں کے خلاف اس کی مدد کی ہے۔ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اسی کی طرف سے ہے۔ مشکلات کو اس کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ مخلوق کے تمام افراد عاجز ہیں جو نہ اپنے آپ کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں، نہ کسی اور کے نفع نقصان پر اختیار رکھتے ہیں۔ یہ زبردست دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا واجب ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا باطل ہے۔ فرشتوں کی گواہی کا علم ہمیں اللہ کے بتانے سے اور اس کے رسولوں کے بتانے سے ہوا ہے۔ اہل علم کی گواہی اس لئے معتبر ہے کہ تمام دینی امور میں انہی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ خصوصاً سب سے عظیم، سب سے زیادہ جلالت و شرف والے مسئلہ یعنی توحید کے مسئلہ میں۔ علماء کا اول سے آخر تک اس پر اتفاق ہے، انہوں نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے اور توحید تک پہنچنے کے راستے بتائے ہیں۔ لہٰذا مخلوق پر واجب ہے کہ اتنی عظیم گواہیوں والے حکم کو تسلیم کریں اور اس پر عمل کریں۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ سب سے زیادہ شرف والا کام توحید کو جاننا ہے۔ لہٰذا اس کی گواہی اللہ نے خود دی ہے اور اپنی مخلوق میں سے عظیم ترین افراد کو اس کا گواہ بنایا ہے۔ شہادت (گواہی) علم و یقین کی بنیاد ہی پر دی جاسکتی ہے، جو آنکھ سے مشاہدہ کے برابر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص توحید کے معاملہ میں اس مقام تک نہیں پہنچتا وہ اہل علم میں شامل نہیں۔ اس آیت میں علم کے شرف و منزلت کے بہت سے دلائل ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں میں سے انبیاء کو منتخب کر کے اس عظیم ترین مسئلہ پر شہادت دینے کے لئے مقرر کیا۔ (٢) اللہ نے ان کی گواہی کو اپنی گواہی اور فرشتوں کی گواہی کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ (٣) اللہ نے انہیں ” علم والے“ فرمایا۔ ان کی اضافت علم کی طرف کی۔ کیونکہ وہی اسے لے کر اٹھنے والے اور اس صفت سے متصف ہیں۔ (٤) اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں پر شاہد اور حجت قرار دیا اور جس چیز کی انہوں نے گواہی دی تھی، لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح وہ اس کا سبب بنے اور اس کے مطابق ہونے والے ہر عمل کا ثواب انہیں پہنچے گا۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے۔ (٥) اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو گواہ بنایا ہے اس سے ان کا سچا اور قابل اعتماد ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ نے انہیں جس چیز کا محافظ بنایا ہے، وہ اس معاملے میں دیانت دار ہیں۔ اپنی توحید کے اثبات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا عدل ثابت فرمایا ہے۔ ارشاد ہے﴿ قَائِمًا بِالْقِسْطِ﴾ ” عدل کے ساتھ قائم“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں، اور بندوں کے معاملات کے فیصلے کرنے میں ازل سے انصاف کے ساتھ متصف ہے۔ امرو نہی میں بھی اس کا راستہ ” صراط مستقیم“ ہے خلق و تقدیر میں بھی اس کے بعد پھر توحید کی تاکید فرمائی اور فرمایا﴿  لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾” اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ “ بنیادی مسئلہ کہ اللہ کی توحید کو تسلیم کیا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، اس کے اتنے زیادہ نقلی اور عقلی دلائل موجود ہیں کہ صاحب بصیرت حضرات کے ہاں یہ سورج سے بھی زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ نقلی دلائل میں قرآن و حدیث کی وہ تمام نصوص شامل ہیں جن میں اس کا حکم دیا گیا ہے، اس کی تائید کی گئی ہے، اہل توحید سے محبت، اور منکرین توحید سے نفرت اور ان کی عقوبت مذکور ہے اور شرک و اہل شرک کی مذمت ہے۔ یہ سب توحید کے نقلی دلائل ہیں۔ قرآن تقریباً تمام ہی توحید کے دلائل پر مشتمل ہے۔ عقلی دلائل جنہیں غور و فکر کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے، قرآن نے ان کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے اور بہت سے دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سب سے بڑی عقلی دلیل اللہ کی ربوبیت کا اعتراف ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ ہی خالق، رازق، تمام معاملات میں مختار کل ہے۔ وہ لازماً اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ معبود بھی اللہ ہی ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں۔ چونکہ یہ واضح ترین اور عظیم ترین دلیل ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کثرت کے ساتھ اس سے استدلال کیا ہے۔ صرف اللہ کے مستحق عبادت ہونے کی ایک اور عقلی دلیل یہ ہے کہ نعمتیں دینے والا مصیبتیں دور کرنے والا صرف وہی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین ہے کہ ظاہری، باطنی، چھوٹی، بڑی، قلیل اور کثیر تمام نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں اور ہر مصیبت، سختی، تکلیف اور پریشانی کو صرف وہی دور کرسکتا ہے اور مخلوق میں سے کوئی فرد کسی کے لئے تو درکنار، اپنے لئے بھی حصول نعمت اور دفع مضرت کا مالک نہیں، اسے ضروریہ یقین ہوگا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرنا سب سے بڑا باطل ہے اور عبودیت اسی کا حق ہے جو اکیلا ہی نعمتیں دینے والا اور مصیبتیں ٹالنے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پر اس دلیل کو بہت ہی زیادہ ذکر فرمایا ہے۔ ایک عقلی دلیل یہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے کہ اللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے۔ وہ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں نہ کسی اور کی۔ اور فرمایا ہے کہ وہ سماعت و بصارت سے محروم ہیں اور اگر فرض کرلیا جائے کہ سنتے ہیں تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ان کی دوسری صفات بھی انہیں انتہائی ناقص ثابت کرتی ہیں۔ ان کی یہ حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم صفات اور افعال جمیلہ کا ذکر فرمایا ہے اور قدرت وغلبہ وغیرہ صفات ذکر کی ہیں جو سمعی اور عقلی دلائل سے معلوم ہوتی ہیں جو اس چیز کو کما حقہ سمجھ لے گا (کہ غیر اللہ مجبور ہیں اور اللہ تعالیٰ عظیم صفات، قوت غلبہ وغیرہ کا حامل ہے) اسے معلوم ہوجائے گا کہ عبادت کے لائق صرف رب عظیم ہے، جسے ہر لحاظ سے کمال، ہر قسم کی عظمت، تمام تعریف، ہر ایک قدرت، اور تمام تر کبریائی حاصل ہے۔ وہ عبادت کے لائق نہیں جو پیدا کئے گئے ہیں، جن کے فصلے کوئی اور کرتا ہے، جو ناقص ہیں، بہرے اور گونگے ہیں اور عقل و فہم سے محروم ہیں۔ ایک اور عقلی دلیل، جو اللہ کے بندے زمانہ قدیم میں بھی اور زمانہ جدید میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ اہل توحید کی عزت افزائی اور اہل شرک کی رسوائی اور عقوبت ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ نے توحید کو دین و دنیا کی ہر بھلائی کے حصول اور ہر سحر سے بچاؤ کا ذریعہ بنایا ہے اور شرک و کفر کو تمام دینی و دنیاوی سزاؤں کا سبب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب رسولوں کے واقعات بیان فرمائے جو انہیں اطاعت کرنے والوں اور نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ پیش آئے، نافرمانوں کی سزائیں ذکر کیں، رسولوں اور ان کے پیروکاروں کی نجات کا ذکر فرمایا، تو ہر واقعہ کے بعد فرمایا ﴿  إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَةً ﴾(الشعراء :26؍8) ” بے شک اس میں نشانی ہے“ یعنی عبرت ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کرسکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ توحید ہی نجات کا باعث ہے اور اسے چھوڑنا تباہی کا باعث ہے۔ یہ بڑے بڑے عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے یہ عظیم اصول ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بار بار مختلف انداز سے بیان کیا ہے تاکہ حق واضح ہوجائے۔ پھر جو چاہے اسے قبول کر کے نجات پا لے اور جو چاہے انکار کر کے تباہی کا نشانہ بن جائے۔ وللہ الحمد