سورة آل عمران - آیت 17

الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جو صبر کرنے والے اور سچ کہنے والے اور حکم ماننے والے اور خرچ کرنے والے اور رات کی آخری گھڑیوں میں بخشش مانگنے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس کے بعد تقویٰ کے اوصاف تفصیل سے بیان کئے اور فرمایا : ﴿الصَّابِرِينَ﴾ ” صبر کرنے والے“ جو اپنے آپ کو اللہ کے پیارے کاموں اور اس کی اطاعت کے اعمال پر قائم رکھتے ہیں، اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے، صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور اللہ کی تقدیر کے مطابق پیش آنے والے مصائب و مشکلات پر بھی صبر کرتے ہیں۔﴿  وَالصَّادِقِينَ﴾ ” اور سچ بولنے والے“ جو اپنے ایمان میں، اقوال میں اور احوال میں راست باز اور سچے ہیں۔ ﴿ وَالْمُنفِقِينَ﴾” اور خرچ کرنے والے“ جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس میں سے مختلف انداز سے ضرورت مند افراد کو دیتے ہیں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی﴿وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ ﴾ ” اور پچھلی رات بخشش مانگنے والے“ اللہ تعالیٰ نے ان کی اچھی صفات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو معمولی سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز نہیں سمجھتے۔ بلکہ خود کو گناہ گار اور کوتاہی کرنے والے سمجھتے ہیں۔ اس لئے رب سے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ایسا وقت منتخب کرتے ہیں جب قبولیت کی امید زیادہ ہو اور وہ صبح صادق کا وقت ہے۔ حسن (بصری) فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز اتنی لمبی کرتے ہیں کہ سحر ہوجاتی ہے۔ پھر بیٹھ کر رب سے استغفار اور دعائے مغفرت کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں یہ مسائل بیان ہوئے ہیں۔ دنیا میں لوگوں کی حالت، دنیا ختم ہونے والا مال و متاع ہے۔ جنت کا بیان، اس کی نعمتیں، آخرت کا دنیا سے افضل ہونا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ آخرت کو ترجیح دینا، اور آخرت کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اہل جنت یعنی متقیوں کی صفات، تقویٰ پر مشتمل اعمال کا تفصیلی بیان۔ ان کی روشنی میں ہر شخص اپنا فیصلہ خود کرسکتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟