سورة الشعراء - آیت 28

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس نے کہا جو مشرق و مغرب کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم سمجھتے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

فرعون کا انکار اور رب العالمین کو اس کے معطل قرار دینے پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ”مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے، سب کا مالک ہے۔“یعنی تمام مخلوق کا پروردگار ہے۔﴿ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ﴾ یعنی میں نے پوری طرح واضح کر دیا ہے، جس کے پاس معمولی سی بھی عقل ہے اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جو چیز میں تمہیں بتا رہا ہوں تم اس کے بارے میں جان بوجھ کر جہالت کا مظاہرہ کررہے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف اشارہ اور تنبیہ ہے کہ تم نے جس جنون کو موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے وہ درحقیقت تمہاری بیماری ہے اور تم نے اسے مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند اور علم میں سب سے زیادہ کامل ہستی کی طرف منسوب کردیا ہے۔ درآنحالیکہ تم خود مجنون ہو کیونکہ تم نے موجودات میں سب سے زیادہ ظاہر ہستی کا انکار کردیا ہے جو زمین و آسمان اور تمام کائنات کی خالق ہے۔ جب تم نے اس کا نکار کردیا تو پھر کون سی چیز ہے جس کا تم اثبات کر رہے ہو؟ جب تم یہ چیز نہیں جانتے تو پھر تم کیا جانتے ہو؟ جب تم اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان نہیں لاتے تو پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد تم کسی چیز پر ایمان لاؤ گے؟ اللہ کی قسم ! وہ پاگل لوگ جو جانوروں کی مانند ہیں، تم سے زیادہ عقل مند ہیں اور گھاس چرنے والے مویشی بھی تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔