لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق، اسی کے لیے ہے جو اس نے (نیکی) کمائی اور اسی پر ہے جو اس نے (گناہ) کمایا، اے ہمارے رب! ہم سے مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر جائیں، اے ہمارے رب! اور ہم پر کوئی بھاری بوجھ نہ ڈال، جیسے تو نے اسے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے تھے، اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ چیز نہ اٹھوا جس (کے اٹھانے) کی ہم میں طاقت نہ ہو اور ہم سے در گزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، تو ہی ہمارا مالک ہے، سو کافر لوگوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ﴾” تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے۔ تم اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ۔ اللہ اس کا حساب تم سے لے گا“ تو مسلمان بہت پریشان ہوئے کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ دل میں جس قسم کے خیالات ہوں خواہ وہ پختہ یقین کی صورت میں ہوں، یا عارضی خیالات، دل میں جاگزیں ہوں یا آ کر گزر جانے والے، سب کا مواخذہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کام کا مکلف نہیں فرماتا۔ ان کاموں کا حکم دیتا ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ ان کا حکم نہیں دیتا جو اس کی طاقت سے بڑھ کر ہوں۔ جیسے ارشاد ہے:﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ﴾“ (الحج :22؍ 78) ” اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی“ اوامرو نواہی بنیادی طور پر ایسے نہیں جو انسانوں کے لئے انتہائی دشوار ہوں۔ بلکہ یہ تو روح کی غذا، بدن کی دوا اور نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں۔ اللہ نے بندوں کو جن کاموں کا حکم دیا ہے، وہ رحمت اور احسان کی بنا پر دیا ہے۔ اس کے باوجود جب کوئی عذر پیش آجائے جس سے مشقت کا اندیشہ ہو تو اللہ تعالیٰ تخفیف اور آسانی فرما دیتا ہے۔ کبھی تو اس عمل کو مکلف کے ذمہ سے مکمل طور پر ساقط فرما دیتا ہے۔ کبھی اس کا کچھ حصہ معاف کردیتا ہے۔ جیسے بیمار اور مسافر کے لئے بعض احکام میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہر کسی کو وہی نیکی ملے گی جو اس نے کمائی، اور اس کے ذمے وہی گناہ لکھا جائے گا جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور کسی کی وجہ سے دوسرے کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ نیکی میں (کّسَبَتْ) کا لفظ فرمایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو نیکی معمولی سی کوشش سے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات صرف نیت کی وجہ سے ہی ثواب مل جاتا ہے۔ جبکہ گناہ کے لئے (اِکْتَسَبَتْ) کا لفظ فرمایا گیا ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ انسان کے ذمے گناہ اس وقت تک نہیں لکھا جاتا، جب تک وہ اس کا ارتکاب نہ کرلے اور اس کی کوشش نہ کی جائے۔ جب اللہ نے رسول اور مومنوں کے ایمان کا ذکر فرمایا، اور بتایا کہ انسان سے کو تاہی، غلطی اور بھول چوک کا صدور ممکن ہے اور یہ بتایا کہ اس نے ہمیں صرف ایسے اعمال کا حکم دیا ہے جس کو انجام دینے کی طاقت ہم میں موجود ہے، تو اس کے بعد بتایا کہ مومن بھی یہ دعا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کر کے فرمایا :” میں نے یہ کردیا۔“ ارشاد ہے ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾” اے ہمارے رب ! ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو، تو ہمیں نہ پکڑنا“ بھول اور غلطی میں فرق یہ ہے کہ نسیان (بھول) کا مطلب ہوتا ہے، مامور کام کا دل سے فراموش ہوجانا، اور بھول جانے کی وجہ سے اس عمل کا چھوٹ جانا۔ خطا (غلطی) یہ ہوتی ہے کہ انسان ایک جائز کام کا ارادہ کرے، لیکن اس سے کام اس انداز سے واقع ہوجائے جو جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر رحمت اور احسان فرماتے ہوئے اس سے واقع ہونے والے یہ دونوں طرح کے کام معاف فرما دیے۔ اس اصول کی روشنی میں کہا جاتا ہے کہ جو شخص چھینے ہوئے یا ناپاک کپڑے پہن کر نماز پڑھے۔ بدن پر سے نجاست دور کرنا بھول گیاہو، یا نماز کے دوران بھول کر کسی سے بات کرلے۔ یا روزے کے دوران بھول کر کچھ کھالے، یا احرام کے دوران بھول کر کوئی ممنوع کام کرلے، بشرطیکہ اس میں کسی جان دار کی ہلاکت شامل نہ ہو۔ تو اس کی یہ غلطیاں معاف ہیں۔ اسی طرح اگر ایک کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہو، پھر بھول کر وہ کام کرلے۔ اس طرح اگر غلطی سے کسی کی جان یا مال کا نقصان کر بیٹھے تو اس کو گناہ نہیں ہوگا۔ نقصان پورا کرنے کیلئے ادائیگی کرنے کا تعلق نقصان کرنے سے ہے (ارادہ یا بھول وغیرہ سے نہیں) اس طرح جن موقعوں پر (بسم اللہ) پڑھنا واجب ہے۔ اگر وہاں (بسم اللہ) پڑھنا بھول جائے تو کام درست سمجھا جائے گا۔﴿ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا﴾” اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘،اس سے مشکل احکام مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ درخواست قبول فرما لی اور اس امت پر طہارت اور عبادت کے مسائل میں ایسی نرمی فرما دی، جو کسی اور امت پر نہیں فرمائی تھی۔ ﴿رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِه﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو“ اللہ نے یہ درخواست بھی قبول فرما لی۔ ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا﴾” اور ہم نے سے درگزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر“ معافی اور بخشش کے نتیجے میں مصائب اور شر دور ہوتے ہیں اور رحمت کے نتیجے میں معاملات درست ہوتے ہیں۔﴿ أَنتَ مَوْلَانَا﴾” تو ہمارا مولیٰ ہے“ یعنی ہمارا رب، ہمارا بادشاہ اور ہمارا معبود ہے۔ جب سے تو نے ہمیں پیدا فرمایا تیری مدد اور توفیق ہمیں حاصل رہی ہے۔ تیری نعمتیں ہر وقت مسلسل ہمیں مل رہی ہیں۔ پھر تو نے ہم پر ایک عظیم احسان کیا کہ اسلام کی نعمت عطا فرما دی۔ باقی سب نعمتیں اس کے تابع ہیں۔ اس لئے اے ہمارے مالک اور ہمارے مولیٰ ہم تجھ سے اس نعمت کی تکمیل کا سوال کرتے ہیں کہ ان کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما جنہوں نے تیرے ساتھ کفر کیا، تیرے نبیوں کا انکار کیا، تیرا دین ماننے والوں سے مقابلہ کیا، تیرے احکامات کو پس پشت ڈالا۔ لہٰذا دلیل و برہان اور شمشیر و سنان کے ساتھ ہماری مدد فرما۔ ہمیں زمین میں شوکت عطا فرما۔ ان کو ذلیل کر دے۔ ہمیں ایسا ایمان اور ایسے اعمال نصیب فرما، جن کی برکت سے فتح حاصل ہوتی ہے۔ آمین والحمد اللہ رب العالمین