إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا
بے شک یہ تو قریب تھا کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے گمراہ ہی کردیتا، اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم ان پر جمے رہے۔ اور عنقریب وہ جان لیں گے جب عذاب دیکھیں گے، کون راستے کے اعتبار سے زیادہ گمراہ ہے۔
اس لئے انہوں نے کہا : ﴿ إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا ﴾ ” یقیناً یہ تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا چلا تھا۔“ کیونکہ یہ سب معبودوں کو ختم کرکے ایک ہی معبود قرار دیتا ہے۔ ﴿ لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ﴾ ” اگر ہم ان معبودوں کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے“ تو اس نے ہمیں گمراہ کردیا ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے۔۔۔ اللہ کا برا کرے۔۔۔ کہ توحید گمراہی اور ان کے شرکیہ عقائد ہی سراسر ہدایت ہیں، لہٰذا وہ اپنے ان عقائد پر ثابت قدم رہنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے تھے۔ ﴿ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ﴾ (ص : 38؍6) ” اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہو۔ “ یہاں ان مشرکین نے کہا : ﴿ لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ﴾ اور صبر سوائے اس مقام کے ہر مقام پر قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ اسباب غضب اور جہنم کا ایندھن بننے پر صبر کرنا ہے۔ رہے اہل ایمان تو ان کے رویے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا ب بِالصَّبْرِ ﴾ (العصر : 103؍3) ” وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے ہیں۔ “ چونکہ ان کا فیصلہ تھا کہ وہ راہ راست پر گامزن ہیں اور رسول گمراہ ہے حالانکہ یہ بات محقق ہے کہ ان کے پاس تصرف کی قدرت اور کوئی اختیار نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کو وعید سناتے ہوئے آگاہ فرمایا : ﴿ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ﴾ ” کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے“ تب انہیں اس حقیقت کا علم ہوگا کہ ﴿ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴾ ” راہ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟‘‘ ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴾ (الفرقان : 25؍27 )” اور اس روز ظالم اپنا ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا، اور کہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔“