وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے کوئی نہ کوئی دشمن بنایا اور تیرا رب ہدایت دینے والا اور مدد کرنے والا کافی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کے گزشتہ آباء واجداد نے بھی ایسا ہی کیا تھا جیسا یہ کہ کر رہے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ﴾ ” اور اسی طرح بنایا ہم نے ہر نبی کا دشمن، گناہ گاروں میں سے۔“ یعنی ان لوگوں میں سے جو بھلائی کی صلاحیت رکھتے تھے نہ اس کے لائق تھے بلکہ اس کے برعکس وہ انبیاء و رسل کی مخالفت کرتے تھے، ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اور باطل دلائل کے ذریعے سے ان کے ساتھ جھگڑتے تھے۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ حق ہمیشہ باطل پر غالب آتا ہے، حق پوری طرح واضح ہوتا ہے کیونکہ باطل کا حق کے ساتھ معارضی ایک ایسا امر ہے جو حق کو اور زیادہ واضح اور استدلال کو درجہء کمال تک پہنچا دیتا ہے اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو کس عزت و تکریم سے سرفراز کرے گا اور اہل باطل کے ساتھ کیا سلوک کرے گا، لہٰذا آپ ان کی باتوں پر غمزدہ نہ ہوں اور ان پر حسرت اور غم کے مارے آپ کی جان نہ گھلے۔﴿ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا ﴾ ” اور آپ کو راہ دکھانے کے لئے آپ کا رب کافی ہے۔“ پس آپ کو اپنا مطلوب و مقصود اور دنیا و آخرت کے تمام مصالح حاصل ہوں گے۔ ﴿ وَنَصِيرًا ﴾ ” اور مددگار بھی۔“ وہ آپ کے دشمنوں کے خلاف آپ کی مدد کرے گا آپ کے دینی اور دنیاوی معاملات میں آپ سے تکلیف دہ امور کو دور کرے گا، اس لئے آپ اللہ تعالیٰ ہی کو کافی سمجھئے اور اسی پر بھروسہ کیجئے۔