أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ بادل کو چلاتا ہے، پھر اسے آپس میں ملاتا ہے، پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں میں سے جو اس میں ہیں، کچھ اولے اتارتا ہے، پھر انھیں جس کے پاس چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے اور انھیں جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو لے جائے۔
کیا تو نے اپنی آنکھوں کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ کیسے ﴿ يُزْجِي سَحَابًا ﴾ ” بادل کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو ہانکتا ہے“ ﴿ ثُمَّ يُؤَلِّفُ ﴾ پھر وہ ان بدلیوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کو پہاڑوں کی مانند گہرا ابر بنا دیتا ہے۔ ﴿ فَتَرَى الْوَدْقَ ﴾ تو ان بادلوں میں سے متفرق قطروں کی صورت میں بارش کو نکلتے ہوئے دیکھتا ہے تاکہ کسی ضرر کے بغیر اس بارش سے فائدہ حاصل ہو۔ پس اس بارش سے بڑے بڑے تالاب بھر جاتے ہیں، دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتے ہیں، وادیاں بہہ نکلتی ہیں اور روئے زمین پر قسم قسم کی نباتات اگ آتی ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بادل میں سے ژالہ باری بھی کرتا ہے یہ ژالہ باری جہاں ہوتی ہے ہر چیز کو تلف کر کے رکھ دیتی ہے۔ ﴿ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ﴾ پس وہ اپنے حکم کونی و قدری کے تقاضے اور اپنی قابل ستائش حکمت کے مطابق جس پر چاہتا ہے ژالہ باری کردیتا اور جسے چاہتا ہے اس ژالہ باری سے بچا لیتا ہے ﴿ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ ﴾ یعنی اس بادل میں کوندنے والی بجلی اپنی تیز روشنی کی وجہ سے، قریب ہے کہ ﴿ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ ﴾ ” آنکھوں کو لے جائے۔“ وہ ہستی، جس نے ان بادلوں کو اٹھایا اور ان کو اپنے ان بندوں تک پہنچایا جو اس کے محتاج ہیں اور ان کو اس طرح برسایا کہ اس بارش سے فائدہ حاصل ہو اور نقصان نہ ہو۔۔۔ کیا وہ کامل قدرت، اٹل مشیت اور بے پایاں رحمت کی مالک نہیں؟