إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ
جب تم اسے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں کے ساتھ لے رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔
﴿ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ ﴾ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اسے اپنی زبانوں سے نقل درنقل لے رہے تھے اور پھر یہ واقعہ بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔۔۔۔ حالانکہ وہ باطل قول تھا۔ ﴿ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ﴾ ” اور تم اپنے مونہوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم ہی نہیں تھا) دونوں امور حرام ہیں، یعنی کلام باطل اور بغیر علم کے بات کرنا ﴿ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا ﴾ ” اور تم اس بات کو بہت معمولی سمجھ رہے تھے“ اہل ایمان میں سے جس کسی نے اس کا ارتکاب کیا اسی وجہ سے کیا، بعدازاں اس سے توبہ کی اور اس گناہ سے پاک ہوئے ﴿ وَهُوَ عِندَ اللّٰـهِ عَظِيمٌ ﴾ ” حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے۔“ اس آیت کریمہ میں بعض گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنے پر سخت زجرو توبیخ ہے۔ بندے کا گناہوں کو ہلکا شمار کرنا اس کو فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس سے گناہ کی سزا میں کمی ہی کی جاتی ہے، بلکہ اس طرح گناہ دگنا چوگنا ہوجاتا ہے اور گناہ میں دوبارہ مبتلا ہونا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔