الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔
اس آیت کریمہ میں زنا کی رذالت اور قباحت کا بیان ہے کہ یہ فعل بد، فاعل اور اس کے ساتھ میل جول رکھنے والے لوگوں کی عزت پر ایسا دھبہ لگا دیتا ہے جو دیگر گناہوں سے نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ زانی مرد صرف زنا کار عورت ہی سے نکاح کرے۔ اس کا حال ایسی ہی عورت کے حال سے مناسبت رکھتا ہے یا مشرک عورت اس کے مناسب حال ہے جو یوم آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھتی ہے نہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرتی ہے۔ اسی طرح زانیہ عورت سے صرف زانی مرد یا مشرک ہی نکاح کرے۔ ﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں پر حرام ٹھہرا دیا ہے“ یعنی یہ کہ وہ کسی عفت مآب عورت کا زنا کار مرد کے ساتھ نکاح کریں یا عفت مآب مرد کسی زنا کار عورت کو اپنے نکاح میں لائے۔ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ وہ مرد یا عورت جو زنا میں ملوث ہے اور اس نے اس بدکاری سے توبہ نہیں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریم کے باوجود، اس کے ساتھ نکاح کرنے والا، دو میں سے ایک امر سے خالی نہیں۔ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام نہیں کرتا اور یہ صرف مشرک شخص کا وتیرہ ہے یا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا التزام کرتا ہے اور زنا کار کے زنا کا علم رکھنے کے باوجود، اس کے ساتھ عفت مآب عورت کے نکاح کا اقدام کرتا ہے تو ایسا نکاح زنا ہے اور نکاح کرنے والا زنا کا مرتکب ہے۔ اگر وہ سچا مومن ہوتا تو کبھی بھی یہ کام نہ کرتا۔ یہ آیت کریمہ زانیہ عورت کے ساتھ نکاح کی تحریم پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ اسی طرح زانی کے ساتھ نکاح کی تحریم پر دلیل ہے کیونکہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سب سے بڑی مقارنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ ﴾ (الصّٰفّٰت :37؍22)”وہ لوگ جو ظلم کرتے تھے، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اکٹھا کرو۔“ یعنی ان کے جلیسوں کو۔ چونکہ اس میں بہت بڑا شر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو حرام ٹھہرادیا ہے۔ اس سے غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ خاوند کے ساتھ ایسی اولاد کا الحاق ہوتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں۔ نیز وہ دوسری عورتوں کے ساتھ مشغول ہونے کے سبب عفت سے محروم رہتا ہے۔ یہ آیت کریمہ صریحا دلالت کرتی ہے کہ زنا کار مومن نہیں ہوتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” جب زانی زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔،، [صحیح البخاری، المظالم، باب النھی، بغیر اذن صاحبه، ح2475وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان نقصان الإیمان بالمعاصی۔۔۔،ح :57] پس وہ اگرچہ مشرک بھی نہیں ہوتا تاہم وہ اسم مدح سے موسوم نہیں ہوتا جو کہ ایمان مطلق ہے۔