سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

(یہ صدقات) ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کرسکتے، ناواقف انھیں سوال سے بچنے کی وجہ سے مال دار سمجھتا ہے، تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے، اور تم خیر میں سے جو خرچ کرو گے سو یقیناً اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

تمہارے نیک عملوں میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی، اور تمہارے گناہوں میں بلاوجہ اضافہ نہیں کیا جائے گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ کون لوگ زیادہ مستحق ہیں کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ چنانچہ ان کی چھ صفات بیان فرمائی ہیں۔ (١) فقر اور تنگ دستی (٢) ﴿أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں، جہاد وغیرہ کے لئے وقف ہوچکے ہیں، وہ اس کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں (٣) رزق کی تلاش کے لئے سفر کے قابل نہ ہوں۔ جیسے فرمایا ﴿ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ﴾یعنی روزی کمانے کے لئے زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ (٤)﴿ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ﴾” نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں۔“ اس سے ان کا مخلصانہ صبر اور سوال سے بچنے کی صفت کا بیان ہے۔ (٥) اللہ نے فرمایا: ﴿تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ﴾ ” آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے پہچان لیں گے۔“ یعنی اس علامت کے ذریعے سے پہچان لیں گے جو اللہ نے ان کے وصف کے طور پر ذکر کی ہے اور یہ ارشاد ﴿يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ﴾ نادانوں کے انہیں مال دار خیال کرنے کے منافی نہیں۔ کیونکہ جو ان کے حالات سے واقف نہیں۔ اس میں اتنی سمجھ نہیں کہ دیکھ کر ان کے حالات سمجھ لے۔ سمجھ دار آدمی تو انہیں دیکھتے ہی ان کی علامت کی وجہ سے پہچان لیتا ہے۔ (٦)﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾یعنی لوگوں سے اصرار کے ساتھ نہیں مانگتے۔ بلکہ اگر حالات انہیں سوال کرنے پر مجبور کردیں تب بھی ان کے سوال میں اصرار اور چمٹ جانے کی کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اپنی ان صفات کی وجہ سے صدقات دیے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ دوسروں پر خرچ کرنا فی نفسہ ایک نیکی اور احسان ہے۔ خواہ کسی شخص پر خرچ کیا جائے۔ آدمی کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ اس لئے فرمایا ﴿وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴾” تم جو کچھ مال خرچ کرو، اللہ اس کا جاننے والا ہے۔“ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو ہر حال میں ہر وقت صدقہ کرتے ہیں۔