سورة المؤمنون - آیت 103

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ شخص جس کے پلڑے ہلکے ہوگئے تو وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا، جہنم ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ﴾ اور جس کی برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے سے بھاری ہوگا اور اس کے پلڑے پر برائیاں چھا جاہیں گی۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ﴾ ” پس یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا۔“ اس خسارے کی نسبت دنیا کا بڑے سے بڑا خسارہ بھی بہت معمولی ہے۔ یہ بہت بڑا اور ناقابل برداشت خسارہ ہے جس کی تلافی ممکن ہی نہیں۔ نہیں یہ ابدی خسارہ اور دائمی بدبختی ہے اس نے اپنے شرف کے حامل نفس کو خسارے میں مبتلا کردیا جس کے ذریعے سے وہ ابدی سعادت حاصل کرسکتا تھا۔ پس تھا پس اس نے اپنے رب کریم کے پاس ابدی نعمتوں کو ہاتھ سے گنوا دیا۔ ﴿ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ﴾ ” وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔“ وہ ابدالآ باد تک اس سے نہیں نکلیں گے۔ یہ وعید، جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کرچکے ہیں، اس شخص کے لیے ہے جس کی برائیاں اس کی نیکیوں پر چھا گئی ہوں گی اور ایسا شخص کافر ہی ہوسکتا ہے۔ اس طرح اس کا حساب اس شخص کے حساب کی مانند نہیں ہوگا جس کی نیکیوں اور برائیوں دونوں کا وزن ہوگا کیونکہ کفار کے پاس تو کوئی نیکی ہی نہیں ہوگی۔ البتہ ان کی بداعمالیوں کو اکٹھا کر کے شمار کیا جائے گا۔ وہ ان بداعمالیوں کا مشاہدہ اور ان کا اقرار کریں گے اور رسوائی اٹھائیں گے۔ رہا وہ شخص جو بنیادی طور پر مومن ہے مگر اس کی برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے کے مقابلے میں جھکا ہوا ہوا ہوگا۔۔۔۔۔ تو وہ اگرچہ جہنم میں داخل ہوگا مگر وہ اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا جیسا کہ کتاب و سنت کی نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔