سورة المؤمنون - آیت 70

أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا کہتے ہیں کہ اسے کوئی جنون ہے، بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان میں سے اکثر حق کو برا جاننے والے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ﴾ ” یا وہ کہتے ہیں کہ اسے جنون لاحق ہے“ اس لیے وہ ایسی باتیں کر رہا ہے اور مجنون کی باتوں پر کان دھرا جاتا ہے نہ اس کی باتوں کا اتبار ہی کیا جاتا ہے کیونکہ وہ باطل اور احمقانہ باتیں منہ سے نکالتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ ﴾ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس حق ( امر ثابت) لے کر آئے ہیں جو سراسر صدق و عدل پر مبنی ہے جس میں کوئی اختلاف ہے نہ تناقض۔ تب وہ شخص جو یہ چیز لے کر آیا ہو وہ کیسے پاگل ہے ؟۔۔۔۔ بلکہ وہ تو علم و فعل اور مکارم اخلاق کے اعتبار سے درجہ کمال پر فائز ہے۔ اس میں گزشتہ مضمون سے انتقال ہے یعنی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے منع کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ﴾ ” ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے۔“ اور سب سے بڑا حق جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس لے کر آئے ہیں، اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص اور غیر اللہ کی عبادت کو ترک کرنا ہے اور ان کا اس بات کو ناپسند کرنا اور اس سے تعجب کرنا معلوم ہے۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق لے کر آنا اور ان کا حق کو ناپسند کرنا دراصل حق کی تکذیب کرنا ہے۔ یہ کسی شک کی بنا پر ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی وجہ سے، بلکہ یہ انکار حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰـهِ يَجْحَدُونَ ﴾ (الانعام :2؍33)” یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں جھٹلا رہے، بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں۔ “