فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ
تو انھوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں، حالانکہ ان کے لوگ ہمارے غلام ہیں۔
﴿فَقَالُوا ﴾ انہوں نے تکبر اور غرور سے ضعیف العقل لوگوں کو ڈراتے اور فریب کاری کرتے ہوئے کہا : ﴿ أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا﴾ ” کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں؟“ جیسا کہ ان سے پہلے لوگ بھی ایسے ہی کہا کرتے تھے چونکہ کفر میں ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے تھے۔ اس لیے ان کے اقوال و افعال بھی ایک دوسرے کے مشابہ تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے ذریعے سے ان پر جو عنایت کی انہوں نے اسے جھٹلایا دیا ﴿وَقَوْمُهُمَا﴾ ’’اور ان دونوں کی قوم“ یعنی بنی اسرائیل ﴿ لَنَا عَابِدُونَ﴾ ” ہماری غلام ہے۔“ یعنی وہ پر مشقت کام سر انجام دینے کے لیے ہمارے مطیع ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴾( البقرة : 2؍49)” یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی وہ تمہیں بہت عذاب دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔“ پس ہم ان کے متبوع ( پیشوا) ہوتے ہوئے ان کے تابع کیسے بن سکتے ہیں؟ اور یہ ہم پر سردار کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کے قول کی نظیر نوح علیہ السلام کی قوم کا یہ قول ہے ﴿ أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ ﴾ ( الشعراء:26؍111)” کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی تو رذیل لوگوں نے کی ہے۔“ ﴿ وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ﴾ ( ھود:11؍27) ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف انہیں لوگوں نے تیری پیروی کی ہے جو ہماری قوم میں رذیل اور چھچھورے تصور کئے جاتے ہیں۔“