سورة المؤمنون - آیت 25

إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِينٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ نہیں ہے مگر ایک آدمی، جسے ایک جنون ہے، سو ایک وقت تک اس کے بارے میں انتظار کرو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

کفار نے کہا : ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ ﴾ یعنی یہ تو مجنون ہے ﴿ فَتَرَبَّصُوا بِهِ ﴾ یعنی اس کے بارے میں انتظار کرو ﴿حَتَّىٰ حِينٍ﴾ یہاں تک کہ اس کو موت آجائے۔ یہ شبہات جو انہوں نے وارد کئے تھے درحقیقت یہ اپنے نبی سے ان کا معارضہ تھا جو ان کے کفر اور عناد کی شدت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انتہائی جہالت اور ضلالت میں مبتلا تھے۔ یہ شبہات کسی بھی لحاظ سے معارضے کی صلاحیت نہیں رکھتے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کرچکے ہیں بلکہ یہ شبہات فی نفسہ متناقض اور متعارض ہیں۔ پس ان کا یہ کہنا ﴿مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ﴾ ثابت کرتا ہے کہ انہیں اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ ان کا نبی عقل مند ہے جو ان کے خلاف چال چلتے ہوئے ان پر غلبہ حاصل کر کے ان پر سرداری کرے گا اور ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے بچا جائے تاکہ اس سے دھوکہ نہ کھایا جا سکے۔ ان کا یہ مذکورہ قول ان کے اس دعوے کے ساتھ کیسے مناسبت رکھتا ہے۔ ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ﴾ کیا یہ گمراہ شخص کا شبہ نہیں، جو اسی کے خلاف جاتا ہے؟ اس شخص کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی دعوت کو روکا جائے اور اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسوا کر کے رہتا ہے جو اس کے رسولوں سے عداوت رکھتا ہے۔