وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔
﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴾ یعنی وہ اپنی امانت اور اپنے عہد کی رعایت اور حفاظت کرتے ہیں، ان کو قائم کرنے اور ان کے نفاذ کے بہت حریص ہیں۔۔۔ یہ آیت کریمہ تمام امانتوں کے لئے عام ہے خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ﴾ )الاحزاب : 33؍72) ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس ذمہ داری کو اٹھا لیا۔‘‘ پس ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر فرض کی ہے، امانت ہے، اس کو پوری طرح سے ادا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا بندے کی ذمہ داری ہے، اسی طرح انسانوں کی امانتیں اس کے تحت آتی ہے، مثلاً مال کی امانت اور راز کی امانت وغیرہ۔ پس امانت کی ان دونوں اقسام کی حفاظت اور ان کو پوری طرح ادا کرنا فرض ہے۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ (النساء : 4؍58) ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو ان کی امانتیں واپس کردیا کرو۔‘‘ اسی طرح عہد کا پورا کرنا بھی فرض ہے اور یہ اس عہد کو شامل ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور جو ان کے اور بندوں کے درمیان ہے اور اس سے مراد وہ التزامات اور معاہدے ہیں جو بندہ کسی سے کرتا ہے، ان کی حفاظت کرنا اور ان کو پورا کرنا اس پر واجب ہے، ان میں کوتاہی کرنا یا ان کو جان بوجھ کر چھوڑ دینا حرام ہے۔