وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
اور وہی جو لغو کاموں سے منہ موڑنے والے ہیں۔
﴿ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ ﴾ ’’اور وہ لغو سے۔‘‘ یہاں (لغو) سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بھلائی اور کوئی فائدہ نہ ہو۔ ﴿ مُعْرِضُونَ ﴾ ’’اعراض کرنے والے ہیں۔‘‘ اپنے آپ کو لغو سے پاک اور برتر رکھنے کے لئے۔ جب کبھی کسی لغو چیز پر سے ان کا گزر ہوتا ہے تو نہایت وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور جب یہ لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں تو حرام کاموں سے ان کا اعراض اولیٰ و احریٰ ہے۔ جب بندہ بھلائی کے سوا لغویات میں اپنی زبان پر قابو پا لیتا ہے تو معاملہ اس کے اختیار میں آجاتا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، جب کہ آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرما رہے تھے۔۔۔ فرمایا’’ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس پر ان سب چیزوں کا دارومدار ہے؟‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، جی ہاں ! ضرور بتائیں، چنانچہ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا’’اس کو اپنے قابو میں رکھو‘‘ [جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی حرمةالصلاۃ، ح: 2616وسنن ابن ماجه، الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة،ح:3973) پس اہل ایمان کی صفات حمیدہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ لغویات اور محرمات سے اپنی زبان کو روکے رکھتے ہیں۔