وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہمیشہ اس کے بارے میں کسی شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ ان کے پاس اچانک قیامت آجائے، یا ان کے پاس اس دن کا عذاب آجائے جو بانجھ (ہر خیر سے خالی) ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی حالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ کفار ہمیشہ شک و ریب میں مبتلا رہیں گے۔ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ جو کچھ ان کے پاس لے کر آئے ہیں کفار اپنے عناد اور اعراض کے باعث شک کرتے رہیں گے اور وہ اسی حال میں ہمیشہ رہیں گے ﴿حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً ﴾ ” یہاں تک کہ ان کے پاس قیامت کی گھڑی اچانک آجائے“ ﴿ أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ ﴾ ” یا ان کے پاس بانجھ دن کا عذاب آجائے۔“ یعنی ایسے دن کا عذاب آجائے، جس میں ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جب قیامت کی گھڑی ان کے پاس آجائے، جس میں ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جب قیامت کی گھڑی ان کے پاس آجائے گی، یا وہ دن آجائے گا تو ان لوگوں کو معلوم ہوجائے گا جنہوں نے کفر کیا کہ وہ جھوٹے تھے۔ وہ نادم ہوں گے جبکہ ان کی ندامت انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ کاش انہوں نے رسول پر ایمان لا کر اس کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ اس آیت میں کفار کو اپنے شک و شبہات اور افترا پردازی پر قائم رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔