الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
وہ جنھیں ان کے گھروں سے کسی حق کے بغیر نکالا گیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ اور اگر اللہ کا لوگوں کو ان کے بعض کو بعض کے ذریعے ہٹانا نہ ہوتا تو ضرور ڈھا دیے جاتے (راہبوں کے) جھونپڑے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، بے شک اللہ یقیناً بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ظلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم ﴾ یعنی ان کو اذیتوں اور فتنے میں مبتلا کر کے اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا ﴿ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا ﴾ یعنی ناحق اور ان کا گناہ اس کے سوا کچھ نہیں جس کی بنا پر ان کے دشمن ناراض ہو کر ان کو سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ ﴿ أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰـهُ ﴾ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، یعنی ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں اور دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا گناہ ہے تو وہ ضرور گنہگار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ (البروج : 85 ؍8) ” وہ اہل ایمان سے صرف اس بات پر ناراض ہیں کہ اللہ تعالیٰ غالب اور قابل ستائش پر ایمان لاتے ہیں۔ “ یہ آیت کریمہ جہاد کی حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ جہاد کا مقصد اقامت دین یا اہل ایمان کا کفار کی اذیتوں، ان کے ظلم اور ان کی تعدی سے دفاع کرنا ہے جو اہل ایمان پر ظلم و زیادتی کی ابتدا کرتے ہیں، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ممکن بنایا جائے اور دین کے تمام ظاہری قوانین کو نافذ کیا جائے، اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ ﴾ ” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا۔“ پس اللہ تعالیٰ مجاہدین فی سبیل اللہ کے ذریعے سے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کرتا ہے۔ ﴿ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ ﴾ یعنی یہ بڑے بڑے معابد منہدم کردیئے جاتے، جو اہل کتاب کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً یہود و نصاریٰ کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد۔ ﴿ يُذْكَرُ فِيهَا ﴾ ” ذکر کیا جاتا ہے ان میں“ یعنی ان عبادت گاہوں میں ﴿ اسْمُ اللّٰـهِ كَثِيرًا ﴾ ” اللہ کا نام بہت زیادہ۔“ یعنی ان عبادت گاہوں کے اندر نماز قائم کی جاتی ہے، کتب الٰہیہ کی تلاوت ہوتی ہے اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ روکے، تو کفار مسلمانوں پر غالب آجائیں، ان کے معابد کو تباہ کردیں اور دین کے بارے میں ان کو آزمائش میں مبتلا کردیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جہاد جارح کی جارحیت اور ایذا رسانی کا سدباب کرنے اور بعض دیگر مقاصد کے لئے مشروع کیا گیا ہے، نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ وہ شہر جہاں امن اور اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے، اس کی مساجد آباد ہیں جہاں دین کے تمام شعائر قائم ہیں، یہ مجاہدین کی فضیلت اور ان کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴾ (البقرۃ : 2؍152)” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹاتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے، مگر اللہ تعالیٰ جہان والوں پر بڑا ہی فضل کرتا ہے۔ “ اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ ہم آج کل مسلمانوں کی مساجد کو آباد دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان مساجد میں ایک چھوٹی سی امارت اور ایک غیر منظم حکومت قائم ہوتی ہے حالانکہ ان پر اردگرد کے فرنگیوں کے خلاف جہاد لازم ہے بلکہ ہم ایسی مساجد بھی دیکھتے ہیں جو کفار کی حکومت اور ان کے انتظام کے تحت آباد ہیں۔ اہل مسجد پرامن اور مطمئن ہیں حالانکہ کافر حکومتوں کو قدرت اور طاقت حاصل ہے کہ وہ ان مساجد کو منہدم کردیں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹائے تو یہ معابد منہدم کردیئے جائیں اور ہم نے تو لوگوں کو ایک دوسرے کو ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس اعتراض اور اشکال کا جواب، اس آیت کریمہ کے عموم میں داخل اور اس کے افراد میں سے ایک فرد ہے۔ جو کوئی زمانہ جدید کی حکومتوں کے حالات اور ان کے نظام کی معرفت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان حکومتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والا ہر گروہ اور ہر قوم کو، اس مملکت کا رکن، اس کے اجزائے حکومت میں سے ایک جزو تصور کیا جاتا ہے خواہ یہ گروہ اپنی تعداد کی بنا پر اقتدار میں ہو، خواہ اپنی حربی استعداد یا مال، یا علم یا خدمات کی بنا پر اقتدار میں شریک ہو۔ حکومتیں اس گروہ کے دینی اور دنیاوی مصالح و مفادات کی رعایت رکھتی ہیں اور اس بات سے ڈرتی ہیں کہ اگر انہوں نے ان کے مصالح کی رعایت نہ رکھی تو حکومت کے انتظام میں خلل واقع ہوجائے گا اور حکومت کے بعض ارکان مفقود ہوجائیں گے۔ پس اس سبب سے دین کے معاملات قائم ہیں۔ خاص طور پر مساجد کا نظم و نسق۔۔۔الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۔۔۔ بہترین طریقے سے ہو رہا ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے ممالک کے دارالحکومتوں میں مساجد کا انتظام انتہائی اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں، اپنی مسلمان رعایا کی دل جوئی کی خاطر اس بات کا پورا خیال رکھتی ہیں، حالانکہ ان نصرانی ممالک کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور حسد موجود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہ بغض اور حسد ان کے درمیان روز قیامت تک موجود رہے گا۔ پس مسلمان حکومت، جو اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، ان کے آپس کے افتراق اور حسد کی وجہ سے ان کی جارحیت سے محفوظ رہتی ہے۔ کوئی ملک اس مسلمان ملک کے خلاف اس خوف سے جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کسی اور ملک کی حمایت اور مدد حاصل کرے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کا مشاہدہ کروائے جس کا اس نے اپنی کتاب میں وعدہ کر رکھا ہے اور دین کی طرف مسلمانوں کے رجوع کی ضرورت کے شعور کے اجاگر ہونے کی بنا پر اس نصرت کے اسباب ظاہر ہوگئے ہیں۔۔۔ ولِلَّـهِ الْحَمْدُ ۔۔۔ اور یہ شعور عمل کی پر بنیاد ہے لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا جو واقع کے مطابق سچ ثابت ہوا، فرمایا : ﴿ وَلَيَنصُرَنَّ اللّٰـهُ مَن يَنصُرُهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ یعنی وہ پوری قوت کا مالک اور غالب ہے اس کے سامنے کسی کی کوئی مجال نہیں۔ وہ تمام مخلوق پر غالب ہے ان کی پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پس اے مسلمانو ! خوش ہوجاؤ کہ اگرچہ تم تعداد اور ساز و سامان کے اعتبار سے کمزور ہو اور تمہارا دشمن طاقتور ہے مگر تمہیں قوت والی اور غالب ہستی پر بھروسہ اور اس ذات پر اعتماد ہے جس نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو تخلیق کیا۔ پس وہ تمام اسباب اختیار کرو جن کو استعمال کرنے کا تم کو حکم دیا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللّٰـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴾ (محمد : 47؍7)” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔“ اے مسلمانو ! ایمان اور عمل صالح کی خاطر اٹھ کھڑے ہو ! ﴿ وَعَدَ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ﴾ (النور : 24 ؍55) ” تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو زمین کی خلافت عطا کی تھی، ان کے دین کو ان کے لئے مستحکم کر دے گا، جسے اللہ نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ “