الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
وہ لوگ کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، ان کے دل ڈرجاتے ہیں اور ان پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے عاجزی کرنے والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ ﴾ ” وہ لوگ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور صرف اس کے خوف ہی کی بنا پر محرمات کو ترک کردیتے ہیں ﴿وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ﴾ ان پر جو مصیبتیں اور سختیاں آتی ہیں اور انہیں جن مختلف اقسام کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان پر صبر کرتے ہیں، ان میں سے کسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ناراضی کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ اپنے رب کی رضا کے حصول کی خاطر صبر کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ ﴿ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ ﴾یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو کامل اور درست طریقے سے قائم کرتے ہیں، یعنی وہ اس کی ظاہری اور باطنی عبودیت اور اس کے تمام فرائض و مستحبات کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴾ ” اور جو ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔“ یہ تمام نفقات واجبہ، مثلاً زکوٰۃ، کفارات، بیویوں، غلاموں اور اقارب پر خرچ کرنا اور تمام نفقات مستحبہ، جیسے تمام قسم کے صدقات ہیں، کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرف جار (مِنْ) کا استعمال کیا ہے جو تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے، اس میں سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے رغبت کرے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا کیا ہے، یہ اس کا بہت معمولی حصہ ہے، اس رزق کے حصول میں بندے کی قدرت کو کوئی دخل نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کے حصول کو آسان نہ بناتا اور اس کو عطا نہ کرتا تو بندہ اسے حاصل نہ کرسکتا۔۔۔ پس اے وہ شخص ! جس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کو خرچ کر، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کریگا اور اپنے فضل سے تیرے رزق میں اضافہ کرے گا۔