يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ
جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اس سے غافل ہوجائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہرگز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔
اس لئے فرمایا : ﴿يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ ﴾ ” جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی۔“ حالانکہ دودھ پلانے والی ماں کی جبلت میں اپنے بچے کی محبت رچی بسی ہوتی ہے، خاص طور پر اس حال میں جبکہ بچہ ماں کے بغیر زندہ نہ رہ سکتا ہو ﴿وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا﴾ یعنی شدت ہول اور سخت گھبراہٹ کے عالم میں ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ ﴿وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ﴾ یعنی اے دیکھنے والو ! تم سمجھو گے کہ لوگ شراب کے نشہ میں مدہوش ہیں، حالانکہ وہ شراب نوشی کی وجہ سے مدہوش نہ ہوں گے ﴿وَلَـٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰـهِ شَدِيدٌ﴾ ” بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا“ جس کی وجہ سے عقل ماری جائے گی، دل خالی ہو کر گھبراہٹ اور خوف سے لبریز ہوجائیں گے، دل اچھل کر حلق میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں خوف سے کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ اس روز کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی طرف سے بدلہ دینے والا ہوگا ﴿يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ﴾ (عبس : 80 ؍34۔ 37) ” اس روز بھائی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سے، اپنی بیوی اور بیٹوں سے، اس روز ہر شخص ایک فکر میں مبتلا ہوگا جو اس کو دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گی۔“ وہاں ﴿ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾ (الفرقان : 25 ؍27۔ 28) ” ظالم مارے پشیمانی اور حسرت کے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور پکار اٹھے گا، اے کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ اس وقت کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے اور کچھ چہرے روشن ہوں گے۔ ترازوئیں نصب کردی جائیں گی جن میں ذرہ بھر نیکی اور بدی کا بھی وزن کیا جاسکے گا۔ اعمال نامے پھیلا دیئے جائیں گے اور ان کے اندر درج کئے ہوئے تمام اعمال، اقوال اور نیتیں، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سامنے ہوں گے اور جہنم کے اوپر پل صراط کو نصب کردیا جائے گا۔ جنت اہل تقویٰ کے قریب کردی جائے گی اور جہنم کو گمراہ لوگوں کے سامنے کردیا جائے گا ﴿إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ﴾ (الفرقان : 25 ؍12۔ 13)” جب وہ جہنم کو دور سے دیکھیں گے تو اس کی غضبناک آواز اور اس کی پھنکار سنیں گے، اور جب ان کو جکڑ کر جہنم کی کسی تنگ جگہ میں پھینک دیا جائے گا تو وہاں اپنی موت کو پکارنے لگیں گے“ ان سے کہا جائے گا ﴿لَّا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا﴾ (الفرقان : 25؍14) ” آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کا پکارو۔“ اور جب وہ اپنے رب کو پکاریں گے کہ وہ ان کو وہاں سے نکالے تو رب تعالیٰ فرمائے گا۔ ﴿قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ﴾ (المومنون : 23 ؍108) ” دفع ہوجاؤ میرے سامنے سے پڑے رہو جہنم میں اور میرے ساتھ کلام نہ کرو“ رب رحیم کا غضب ان پر بھڑک اٹھے گا اور وہ ان کو درد ناک عذاب میں ڈال دے گا، وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی مفقود نہیں ہوگا۔ یہ تو ہوگا کفار کا حال اور متقین کو جنت کے باغات میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ وہ انواع و اقسام کی لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے، جہاں جی چاہے گا وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ پس عقل مند شخص، جو جانتا ہے کہ یہ سب کچھ پیش آنے والا ہے تو اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اس کے لئے تیاری کر رکھے، مہلت اسے غفلت میں مبتلا نہ کر دے کہ وہ عمل کو چھوڑ بیٹھے۔ تقویٰ الٰہی اس کا شعار، خوف الٰہی اس کا سرمایہ اور اللہ کی محبت اور اس کا ذکر اس کے اعمال کی روح ہو۔