تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
یہ اللہ کی آیات ہیں، ہم انھیں حق کے ساتھ تجھ پر پڑھتے ہیں اور بلاشبہ تو یقیناً رسولوں میں سے ہے۔
پھر فرمایا : ﴿ تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں، جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں۔،یعنی ایسی سچائی کے ساتھ جس میں کوئی شک نہیں، جو اعتبار اور بصیرت کو بھی متضمن ہے اور بیان حقائق امور کو بھی ﴿ وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾” اور بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ اس میں اللہ کی طرف سے اپنے رسول کے لئے رسالت کی گواہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل میں انبیائے سابقین، ان کے متبعین اور مخالفین کے ان واقعات کا بیان بھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتاتا تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ آپ کی پوری قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوتا جس کو ان واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ جو حق لے کر آئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی سچا ہے جسے اللہ تعالیٰ تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔ اس قصہ میں بہت سی نصیحت آموز نشانیاں ہیں جن سے اہل علم کو نصیحت حاصل ہوتی ہے، مثلاً (1) پہلی بات یہ ہے کہ اہل حل وعقد کا جمع ہو کر یہ غور و فکر کرنا کہ ان کے معاملات کس طریقے سے سدھر سکتے ہیں اور پھر ان تجاویز پر عمل کرنا ترقی اور حصول مقصود کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جیسے ان سرداروں نے اپنے نبی سے بادشاہ مقرر کردینے کی درخواست کی تاکہ وہ متحد اور متفق رہیں اور ایک بادشاہ کا حکم مانیں۔ (2) جب حق کی مخالفت کی جائے اور اس پر شبہات وارد کئے جائیں، تو اس سے حق زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یقین تام حاصل ہوجاتا ہے، جیسے ان لوگوں نے طالوت کے بادشاہت کا مستحق ہونے پر اعتراض کیا، تو انہیں ایسے جواب دیئے گئے کہ وہ مطمئن ہوگئے اور شک و شبہ ختم ہوگیا۔ (3) حکومت کو کمال تب حاصل ہوتا ہے جب حاکم علم و عقل بھی رکھتا ہو اور نافذ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک شرط کا، یا دونوں شرطوں کا فقدان سلطنت کے نقصان کا باعث ہے۔ (4) اپنے آپ پر اعتماد کرنے سے ناکامی حاصل ہوتی ہے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے اللہ سے مدد مانگنا اور اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ پہلی صورت کی مثال ان کا اپنے نبی سے یہ کہنا ہے ﴿وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۗیِٕنَا ۭ﴾” بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں“ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جہاد کا حکم ہوا تو وہ منہ موڑ گئے۔ دوسری صورت کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے ﴿ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾ ” جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی ! اے پروردگار ! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو شکست ہوگئی۔ (5) اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ناپاک کو پاک سے، سچے کو جھوٹے سے، ثابت قدمی والے کو بزدل سے ممتاز اور الگ کر دے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ملے جلے اور غیر نمایاں نہیں رہنے دیتا۔ (6) اللہ کی رحمت اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے شر کو مجاہد مومنوں کے ذریعے سے دور کردیتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو زمین میں کافروں کا غلبہ ہوتا اور کافرانہ طور طریقے ہر جگہ پھیل جاتے جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔