وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ
اور ہم نے اسے تمھارے لیے زرہ بنانا سکھایا، تاکہ وہ تمھاری لڑائی سے تمھارا بچاؤ کرے۔ تو کیا تم شکر کرنے والے ہو؟
﴿ وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو زرہ بکتر بنانے کا علم بخشا اور حضرت داؤد علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے زرہ بکتر بنائی اور پھر اس کا علم آئندہ آنے والوں کی طرف منتقل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لوہے کو نرم کردیا اور ان کو زرہ بنانا سکھایا، اس میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ ﴿ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ ﴾ یعنی سخت لڑائی اور جنگ میں تمہاری حفاظت کرنے والی ہے۔ ﴿ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ ﴾ یعنی کیا تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکرادا کرتے ہو جو اس نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کے توسط سے تمہیں عطا کی؟ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ﴾ (النحل : 16؍ 81) ”اور تمہارے لئے ایسی پوشاک بنائی جو گرمی سے تمہاری حفاظت کرتی ہے اور ایسی پوشاک بنائی جو جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم سرتسلیم خم کرو۔ “ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داؤد علیہ السلام کو زرہ بکتر بنانا سکھانا اور ان کے لئے لوہے کو نرم کرنا، خارق عادت امر ہو۔۔۔جیسا کہ مفسرین کہتے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کردیا۔ وہ لوہے کو آگ میں پگھلائے بغیر اسی طرح استعمال میں لاتے تھے گویا کہ وہ گندھا ہوا آٹا اور گندھی مٹی ہو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ عادت جاریہ کے مطابق انہیں لوہے کو استعمال میں لانا سکھایا گیا ہو۔ اللہ کی طرف سے لوہے کو نرم کرنے کی تعلیم ان معروف اسباب میں سے ہو جن کے ذریعے سے آج کل لوہا پگھلایا جاتا ہے۔۔۔اور یہی راجح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا اور ان کو اس پر شکر کرنے کا حکم دیا اور اگر صنعت آہن گری ان امور میں سے نہ ہوتی جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تصرف کی قدرت عطا کی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر اس احسان اور اس کے فوائد کا ذکر نہ کرتا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ داؤد علیہ السلام کی جن زر ہوں کے بنانے کا ذکر ہے اس سے مراد متعین زر ہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تو زرہ بکتر کی جنس کا ذکر کر کے اپنے احسان یاد دلایا ہے اور وہ احتمال جس کا ذکر اصحاب تفسیر کرتے ہیں، تو اس کی کوئی دلیل نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ﴿ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ ﴾ (سبا : 34 ؍10) ” ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کردیا۔“ اور اس میں یہ واضح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو بغیر کسی سبب کے نرم کردیا تھا۔ واللہ اعلم۔