فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ
تو ہم نے وہ (فیصلہ) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا، جو تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی اور ہم ہی کرنے والے تھے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ﴾ یعنی ہم نے سلیمان کو اس قضیے کا فہم عطا کیا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ داؤد علیہ السلام کو کسی دوسرے قضیے کا فہم بھی عطا نہیں کیا گیا تھا۔ اس لئے ان دونوں کا ذکر فرمایا اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مقدس ہے ﴿ وَكُلًّا ﴾ ” اور ہر ایک کو۔“ یعنی داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو ﴿ آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ ” دیا ہم نے حکم اور علم۔“ فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور علم سے ہم نے دونوں کو سرفراز کیا تھا۔ یہ واقعہ دلالت کرتا ہے کہ حاکم جب کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کا فیصلہ کبھی تو حق وصواب کے موافق ہوتا ہے اور کبھی اس میں اس سے خطا بھی ہوجاتی ہے۔ اگر فیصلے میں کوشش و اجتہاد کے باوجود اس سے خطا ہوجائے تو وہ ملامت کا مستحق نہیں۔ پھر ان مخصوص امور کا ذکر فرمایا جن سے ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ نوازا گیا تھا۔ فرمایا : ﴿ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ﴾ ” اور تابع کردیئے ہم نے داؤد کے پہاڑ، وہ تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی۔“ ذکر کیا جاتا ہے کہ داؤد علیہ السلام سب سے زیادہ عبادت گزار اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح و تحمید کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت اور نرم آواز اور رقت عطا کی تھی جو کسی اور کو عطا نہیں ہوئی۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرتے تو ٹھوس پتھر، گونگے پرندے اور بے شعور جانور بھی ان کے ہم زبان ہوجاتے اور یہ داؤد علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا، اس لئے فرمایا : ﴿ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ﴾ یعنی اس فعل کو کرنے والے ہم ہی تھے۔