سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلکہ ہم نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو سازو سامان دیا، یہاں تک کہ ان پر لمبی عمر گزر گئی، پھر کیا وہ دیکھتے نہیں کہ بے شک ہم زمین کو آتے ہیں، اسے اس کے کناروں سے گھٹاتے آتے ہیں، تو کیا وہی غالب آنے والے ہیں؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جو چیز ان کے اپنے کفر و شرک پر جمے رہنے کی باعث بنی اس کے بارے میں فرمایا : ﴿بَلْ مَتَّعْنَا هَـٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ﴾ ہم نے مال اور اولاد کے ذریعے سے ان کی مدد کی، ان کو لمبی عمریں عطا کیں تو وہ ان مقاصد کو چھوڑ کر جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا تھا، لہو و لعب کی بنا پر، مال اور اولاد سے متمتع ہونے میں مشغول ہوگئے اور ان کی مدت مہلت طویل ہوگئی، جس سے ان کے دل سخت ہوگئے، ان کی سرکشی بڑھ گئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہوگیا۔ اگر وہ اس زمین پر دائیں بائیں مڑ کر اپنے جیسے لوگوں کا انجام دیکھتے تو ہلاک ہونے والوں کے سوا کچھ نہ پاتے اور موت کی خبر دینے والے کی آواز کے سوا کوئی آواز نہ سنتے۔ انہیں معلوم ہوتا کہ کئی قومیں پے در پے ہلاک ہوگئیں اور موت نے نفوس کو پھانسنے کے لئے ہر راستے پر پھندہ لگا رکھا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا﴾ یعنی ہم زمین کو اہل زمین کی موت اور ان کو فنا کرنے کے ذریعے آہستہ آہستہ کم کر رہے ہیں یہاں تک کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی زمین اور زمین کے رہنے والوں کا وارث ہوگا اور وہ بہترین وارث ہے اگر وہ اپنی اس حالت کو دیکھیں تو کبھی فریب میں مبتلا نہ ہوں اور کبھی اپنے کفر و شرک کے موجودہ رویے پر جمے نہ رہیں۔ ﴿أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ ” کیا پس وہ غالب ہیں۔“ جو اپنے زور سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کو روک سکتے ہوں اور اپنی طاقت سے موت سے بچ سکتے ہوں؟ کیا یہ ان کا وصف ہے کہ جس کی بنا پر وہ طول بقاء کے فریب میں مبتلا ہیں؟ یا ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کی ارواح کو قبض کرنے کے لئے ان کے رب کا فرشتہ ان کے پاس آئے گا تو اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے اور ادنیٰ سی مزاحمت پر بھی قادر نہ ہوں گے۔