سورة البقرة - آیت 245

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے اور اللہ بند کرتا اور کھولتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چنانچہ فرمایا ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾” ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے؟“ اور جتنا مال ہوسکے نیکی کے کاموں میں، بالخصوص جہاد میں خرچ کرے۔ ” اچھا“ وہ ہے جو حلال کی کمائی سے ہو اور اس سے مقصود محض رضائے الٰہی ہو۔ ﴿ فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ۭ﴾” پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔“ یعنی نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک یا اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرمائے گا۔ ثواب میں یہ اضافہ خرچ کرنے والے کی حالت، نیت، اس خرچ کے فائدے اور ضرورت کی نسبت سے ہوتا ہے۔ انسان کو بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے وہ مفلس ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ ۠﴾” اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے۔“ یعنی جس کا رزق چاہتا ہے وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ معاملات صرف اسی کے ہاتھ میں ہیں اور تمام امور کا دار و مدار اسی کی ذات پر ہے۔ بچا بچا کر رکھنے سے رزق بڑھتا نہیں اور خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں۔ علاوہ ازیں جو خرچ کیا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا، بلکہ ایک دن آنے والا ہے جب وہ اپنی پیش کی ہوئی اشیا پوری پوری، بلکہ بہت زیادہ اضافے کے ساتھ کئی گنا وصول کرلیں گے، اس لئے فرمایا ﴿ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ” اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر کے مقابلے میں اسباب فائدہ نہیں دیتے۔ خصوصاً وہ اسباب جن سے اللہ کے احکامات پر عمل ترک ہوتا ہو۔ نیز ان میں اللہ کی عظیم نشانی کا ذکر ہے کہ اسی جہان میں مردوں کو زندہ کر کے دکھا دیا۔ ان میں اللہ کی راہ میں جہاد و قتال اور خرچ کرنے کا حکم ہے یہاں ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جن سے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہوتی ہے، مثلاً اسے قرض قرار دینا، اس کا بہت زیادہ بڑھ جانا، اور رزق کی کمی بیشی اللہ کے ساتھ میں ہونا، اور بندوں کا اسی کی طرف لوٹ کے جانا۔